ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم تصاویر لیک، پمز ہسپتال کی تحقیقاتی کمیٹی کا اجلاس طلب

اپ ڈیٹ 13 نومبر 2022
ڈاکٹر نوید اے شیخ کی سربراہی میں دو رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے — فائل فوٹو: ارشد شریف/فیس بک
ڈاکٹر نوید اے شیخ کی سربراہی میں دو رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے — فائل فوٹو: ارشد شریف/فیس بک

کینیا میں قتل ہونے والے صحافی ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم تصاویر کے لیک ہونے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کی تحقیقاتی کمیٹی نے ہسپتال کے کم از کم ایک درجن حکام کو طلب کرلیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پمز انتظامیہ نے ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کے دوران لی گئی مرحوم صحافی کی تصاویر نشر کرنے پر 'دنیا نیوز' کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان الیکٹرانک ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے رجوع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: معروف صحافی و اینکر پرسن ارشد شریف کینیا میں ’قتل‘

ڈاکٹر نوید اے شیخ کی سربراہی میں دو رکنی انکوائری کمیٹی نے سول سرونٹ آرڈیننس 1973 کے سیکشن 25 کے تحت 14 نومبر کو (کل) صبح 9:30 بجے ہسپتال کے کانفرنس روم میں افسران کو طلب کیا ہے۔

جن افسران کو طلب کیا گیا ہے ان میں ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد مسعود، میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر ایس ہاشم رضا، چیئرمین میڈیکل بورڈ ڈاکٹر ایس ایچ وقار، میڈیکل بورڈ کے تمام ارکان، ڈائریکٹر آئی ٹی محمد سہیل اور کیمرہ مین میڈیکل بورڈ محی الدین بھی شامل ہیں۔

ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد مسعود نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تصاویر کا لیک ہونا اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونا بدقسمتی کی بات ہے، میں نے ایک انکوائری کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس بات کی تحقیقات کی جاسکیں کہ اس کا ذمہ دار کون ہے۔

مزید پڑھیں: ارشد شریف کے قتل میں خرم اور وقار ملوث ہیں، راناثنا اللہ

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے پیمرا سے رجوع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے کہ ایک نیوز چینل کس طرح یہ تصاویر دکھا کر مقتول صحافی کے اہل خانہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچا سکتا ہے، میری رائے میں یہ غیر اخلاقی تھا اور پیمرا کو نوٹس لینا چاہیے، ہسپتال کی جانب سے پیر کو (کل) پیمرا کو خط لکھا جائے گا‘۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ مرحوم ارشد شریف کے اہل خانہ کو فراہم نہ کیے جانے سے متعلق سوال پر ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ اہل خانہ نے پہلے ہم رابطہ نہیں کیا تھا اور درخواست جوائنٹ ایگزیکٹو افسر (جے ای ڈی) کے دفتر میں جمع کرائی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’میں اپنے الفاظ پر قائم ہوں کہ ارشد شریف کے اہل خانہ نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا، میڈیا پر چلنے والی خبروں می دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ان کے لواحقین پہلے روز سے مجھ سے رابطہ کر رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ان کے اہل خانہ نے مجھ سے 10 نومبر کو رابطہ کیا ہے جس کے بعد میں نے جے ای ڈی سے وضاحت طلب کی ہے، جے ای ڈی نے بتایا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ پہلے ہی دن پولیس کو فراہم کردی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات میں پیش رفت، 2 گواہان کے بیانات قلمبند

ڈاکٹر خالد مسعود نے مزید کہا کہ ارشد شریف کے اہل خانہ کو مطلع کردیا گیا ہے کہ قواعد کے مطابق انہیں پولیس سے رابطہ کرنا ہوگا یا عدالت کے ذریعے رپورٹ حاصل کرنی ہوگی‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کے علاوہ فرانزک رپورٹ آنا بھی ابھی باقی ہے اس لیے ہم موت کی وجہ کے بارے میں وثوق سے تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں‘۔

خیال رہے کہ ارشد شریف 23 اکتوبر کو نیروبی کے قریب کینیا کی پولیس کے ہاتھوں 'غلط شناخت' کے نتیجے میں گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئے تھے۔

ارشد شریف کی موت کی تحقیقات تاحال جاری ہیں، تاہم کئی ٹی وی چینلز کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آچکا ہے کہ ارشد شریف کو گاڑی سے باہر نکال کر تشدد کیا گیا اور نزدیک سے گولی ماری گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں