ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات میں پیش رفت، 2 گواہان کے بیانات قلمبند

اپ ڈیٹ 31 اکتوبر 2022
ٹیلی ویژن رپورٹس میں کہا گیا کہ خرم احمد اور وقار احمد نے ارشد شریف کے قتل کو غلط شناخت کا نتیجہ قرار دیا—فائل فوٹو: ارشد شریف/ فیس بک
ٹیلی ویژن رپورٹس میں کہا گیا کہ خرم احمد اور وقار احمد نے ارشد شریف کے قتل کو غلط شناخت کا نتیجہ قرار دیا—فائل فوٹو: ارشد شریف/ فیس بک

کینیا میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی تفتیش کے لیے دارالحکومت نیروبی میں 2 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نجی ٹی وی چینلز نے بتایا کہ انکوائری کمیٹی نے نیروبی میں خرم احمد سے ملاقات کی جو اپنے بھائی وقار احمد اور مقتول صحافی کے زیراستعمال گاڑی کے مالک ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: معروف صحافی و اینکر پرسن ارشد شریف کینیا میں ’قتل‘

انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ایک ایک اہلکار پر مشتمل یہ کمیٹی اس قتل کی تحقیقات کے لیے اس وقت کینیا میں موجود ہے۔

چینلز کی اطلاعات کے مطابق ارشد شریف جس جگہ ٹھہرے تھے وہ ان دونوں بھائیوں کی ملکیت ہے تاہم آئی بی یا ایف آئی اے کی جانب سے اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ کمیٹی نے ان سے پوچھ گچھ کی ہے۔

ٹیلی ویژن رپورٹس میں کہا گیا کہ خرم احمد اور وقار احمد نے ارشد شریف کے قتل کو غلط شناخت کا نتیجہ قرار دیا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا فیصلہ

وقار احمد نے مبینہ طور پر تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ انہوں نے اپنے ایک دوست کے کہنے پر ارشد شریف کی میزبانی کی تھی لیکن انہوں نے اس شخص کا نام نہیں بتایا جس کے کہنے پر انہوں نے ارشد شریف کو رہائش فراہم کی تھی۔

ٹیلی ویژن چینلز کے مطابق وقار احمد نے کہا کہ ’میں ارشد شریف سے صرف ایک بار نیروبی کے باہر ان کے لاج میں کھانے کے دوران ملا تھا‘۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق وقار احمد نے کہا کہ ’واقعے کے روز (23 اکتوبر کو) ارشد نے ہمارے ساتھ ہمارے لاج میں کھانا کھایا، کھانے کے بعد ارشد میرے بھائی خرم کے ساتھ گاڑی میں چلا گیا اور 30 منٹ بعد گاڑی پر فائرنگ کی اطلاع ملی‘۔

یہ بھی پڑھیں: صحافیوں نے ارشد شریف کے قتل کو ناقابل یقین قرار دے دیا، شفاف تحقیقات کا مطالبہ

وقار احمد نے مبینہ طور پر تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ ’فائرنگ میں میرا بھائی خرم احمد معجزاتی طور پر بچ گیا، ہم نے ارشد شریف کا آئی پیڈ اور موبائل فون کینیا کے حکام کے حوالے کر دیا‘۔

نیوز چینل کے مطابق دونوں بھائیوں نے پاکستانی تفتیشی افسران کو بتایا کہ ’ارشد شریف نیروبی منتقل ہونے کا سوچ رہے تھے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے ویزے کی مدت میں توسیع بھی کروائی تھی‘۔

کینیا کی پولیس کے مطابق ارشد شریف کو 23 اکتوبر کو نیروبی میں اس وقت قتل کیا گیا جب کار چوروں کے تعاقب میں تعینات پولیس نے گاڑی روکنے کی وارننگ کو نظر انداز کرنے اور ناکہ بندی کی خلاف ورزی کرنے پر ارشد شریف کی گاڑی پر فائرنگ کر دی تھی، پولیس کے ایک بیان میں کہا گیا کہ گاڑی پر فائرنگ کو 'غلط شناخت' کا نتیجہ سمجھا جا رہا ہے۔

ارشد شریف کے قتل نے پاکستان میں شدید غم و غصے کو جنم دیا اور تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا، حکومت نے ان مطالبات پر توجہ دیتے ہوئے 2 رکنی انکوائری ٹیم تشکیل دی اور اسے نیروبی روانہ کیا۔

مزید پڑھیں: ارشد شریف کی گاڑی پولیس کی رکاوٹ کے باوجود نہ رکنے پر فائرنگ کا نشانہ بنی، کینین پولیس

دریں اثنا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے ’صحافیوں کے خلاف جرائم سے خاتمے کا عالمی دن‘ ارشد شریف کے نام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ ہر سال اقوام متحدہ کی جانب سے نامزد کردہ یہ دن 2013 میں مالی میں قتل ہونے والے 2 فرانسیسی صحافیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق 2 نومبر کو اس عالمی دن کے موقع پر رکن ممالک پر زور دیا جائے گا کہ وہ صحافیوں کے خلاف جرائم سے نمٹنے کے لیے اقدامات کریں۔

پاکستان میں یہ مسئلہ 2006 سے اہمیت اختیار کر گیا ہے جہاں 2006 سے اب تک 80 سے زائد صحافی دوران ڈیوٹی مارے جا چکے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں