نئے آرمی چیف کے نام پر غور جاری، قیاس آرائیوں کا سلسلہ نہ تھم سکا

اپ ڈیٹ 13 نومبر 2022
شہباز شریف اور نواز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں اگلے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے کلیدی حیثیت رکھتی ہیں — فوٹو: ٹوئٹر
شہباز شریف اور نواز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں اگلے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے کلیدی حیثیت رکھتی ہیں — فوٹو: ٹوئٹر

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے گیریژن کے الوداعی دوروں کے سبب ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ تھم گیا ہے، تاہم نئے آرمی چیف کے نام کے حوالے سے چہ مگوئیاں تاحال جاری ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ سوال ہر کسی کی زباں پر ہے کہ اگلا آرمی چیف کون ہوگا لیکن جواب تاحال واضح نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف کا تقرر: ’وزیراعظم کسی بھی دباؤ کو قبول نہیں کریں گے‘

وزیر اعظم شہباز شریف اور سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف کے درمیان گزشتہ چند روز کے دوران لندن میں ہونے والی ملاقاتیں اگلے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے کلیدی حیثیت رکھتی ہیں، لیکن پاکستان میں موجود مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت ان ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو کی تفصیلات سے لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں یا جان بوجھ کر لب سیے ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم کو نواز شریف کے ساتھ طویل بات چیت کے بعد جمعے کو پاکستان واپس لوٹنا تھا لیکن انہوں نے اپنے شیڈول میں آخری لمحات میں تبدیلی کی اور اب اگلے ہفتے کسی روز ان کی پاکستان واپسی متوقع ہے۔

اگرچہ وزیر اعظم کی وطن واپسی کے شیڈول میں تبدیلی کی باضابطہ طور پر وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ انہیں بخار ہوگیا ہے اور علالت کی وجہ سے انہوں نے سفر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن بہت سے لوگوں کی جانب سے شیڈول میں تبدیلی کو نئے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے مزید بات چیت سے جوڑا جارہا ہے۔

کابینہ کے ایک رکن نے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں کا نام لیتے ہوئے ڈان کو بتایا کہ ’اگلے آرمی چیف کا تقرر ایک ایسا معاملہ ہے جس پر کسی کے ساتھ بات چیت نہیں کی گئی‘۔

مزید پڑھیں: ’حکومت جسے چاہے آرمی چیف مقرر کرے‘، اہم تعیناتی پر عمران خان کا نیا مؤقف

انہوں نے کہا کہ ’کوئی اس بارے میں بات نہیں کر رہا ہے کیونکہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، چیزیں لیک ہو جاتی ہیں اور قابو سے باہر ہو جاتی ہیں، لندن میں کیا بات چیت ہو رہی ہے اس کے بارے میں پوری کابینہ بے خبر ہے، اس حساس معاملے کے حوالے سے یہ ایک بہترین حکمت عملی ہے کیونکہ دوسری صورت میں تدبیریں الٹ ہو سکتی ہیں اور غلط فہمیاں پیدا ہونے کا سبب بن سکتی ہیں‘۔

ایک روز قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے نئے آرمی چیف کے نام کا فیصلہ لندن میں ہونے کی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حوالے سے بات چیت ضرور ہوئی لیکن کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ مجھے 2013 اور 2016 میں اس عمل سے گزرنے کا تجربہ ہے، دونوں مواقع پر یہ عمل 18 نومبر کے بعد پوری شدت کے ساتھ شروع ہوا، اسی طرح اس بار بھی 25 نومبر کے آس پاس قوم کو بالآخر حکومت کے حتمی فیصلے کا پتا چل جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف کی تعیناتی پر نواز شریف سے مشاورت کیلئے وزیر اعظم لندن پہنچ گئے

پارٹی اراکین کئی وجوہات کی بنا پر خاموش ہیں، کچھ اس بارے میں واقعی لاعلم ہیں کہ ان کی جماعت کے قائدین لندن میں کیا گفتگو کر رہے ہیں، جبکہ اس خفیہ گفتگو سے واقف کچھ پارٹی رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ تفصیلات عیاں کردینا نادانی ہوگی۔

ڈان سے بات کرنے والے ایک شخص نے خیال ظاہر کیا کہ ہمیں ریٹائر ہونے والے آرمی چیف کا احترام کرنا چاہیے کیونکہ ایسے وقت میں نئی تعیناتی کے بارے میں بات چیت کرتے رہنا اچھا نہیں لگ رہا جب موجودہ آرمی چیف الوداعی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

’اہم تعیناتی سے جڑے کئی عوامل زیرِ غور ہیں‘

آئین کے مطابق صدر کی جانب سے سروسز چیفس کا تقرر وزیر اعظم کی تجویز پر کیا جاتا ہے، وزیر اعظم فوج کو وزارت دفاع کے ذریعے 5 اہل امیدواروں کے نام جمع کرانے کو کہتے ہیں اور ان میں سے ایک کا انتخاب کرتے ہیں، روایت کے مطابق وزیر اعظم اپنے انتخاب کے حوالے سے موجودہ آرمی چیف سے بات چیت کر سکتے ہیں۔

بظاہر یہ عمل سیدھا سادہ دکھائی دیتا ہے لیکن فوج اور حکومت کی جانب سے اپنے اپنے پسندیدہ ناموں کو ترجیح دیے جانے کی گنجائش موجود ہے، اسی امکان کے پیش نظر نواز شریف اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے درمیان لندن میں جاری ملاقاتیں موضوع بحث بنی ہوئی ہیں۔

اندرونی ذرائع نے بتایا کہ ’میاں صاحب کو لگتا ہے کہ آرمی چیف سب سے سینئر امیدوار کو ہونا چاہیے لیکن دیگر کا نقطہ نظر ذرا مختلف ہے‘۔

یہ بات قابل غور ہے کہ اس اہم ترین عہدے کی دوڑ میں شامل امیدواروں میں سے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر تکنیکی طور پر اعلیٰ ترین جرنیلوں میں سے ہیں، تاہم وہ موجودہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل ہی ریٹائر ہوجائیں گے۔

تاہم اگر جنرل عاصم منیر کو اگلا آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے تو شہباز شریف اس کا کوئی حل نکال سکتے ہیں کیونکہ وزیر اعظم کو اختیار حاصل ہے کہ وہ لیفٹیننٹ جنرل کو ریٹائرمنٹ سے قبل فور اسٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے سکتے ہیں، اس اقدام سے ان کی مدت ملازمت میں 3 برس کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کو مدت ملازمت میں پہلے ہی ایک توسیع دیے جانے پر ماضی میں پیدا ہونے والے تنازعات کے پیش نظر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ نواز شریف اس بات سے آگاہ ہیں کہ اب انہیں توازن قائم کرنا ہوگا۔

ذرائع نے بتایا کہ ’شہباز شریف وہی کریں گے جیسا انہیں حکم ملے گا لیکن یہ حکم کس کی جانب سے ہوگا یہ میں نہیں جانتا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’نواز شریف کو معلوم ہے کہ اس صورتحال سے کس طرح نمٹنا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم شہباز شریف سمری آنے پر دباؤ برداشت کر پائیں گے؟‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کچھ حکمت کا ثبوت دینا پڑے گا یا مختلف نقطہ نظر کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھایا جائے گا، دونوں فریقین کے پاس کھیلنے کے لیے کارڈز موجود ہیں لیکن نواز شریف واضح ہیں کہ فیصلہ سمری آنے پر ہی کیا جائے گا‘۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شریف برادران کی جانب سے کئی عوامل پر غور کیا جارہا ہے، ایک جانب اس اہم تعیناتی سے سنگین اثرات پیدا ہوتے ہیں، دوسرا یہ کہ ان کے اور فوج کے درمیان اعتماد کا بہت بڑا فقدان پایا جاتا ہے، تیسرا یہ پہلو دیکھنا ہے کہ کوئی ایسا فیصلہ کیا جائے جو کسی حساب کتاب یا ذاتی انتخاب کے بجائے فوج کے لیے قابل قبول ہو۔

مسلم لیگ (ن) کے اندرونی ذرائع نے مزید کہا کہ ’میاں صاحب یہ جانتے ہیں کہ یہ تاثر موجود ہے کہ ہم نے ہمیشہ ذاتی بنیادوں پر اپنے حق میں انتخاب کیا ہے‘۔

اس سے زیادہ کھل کر بات نہیں کی جائے گی اور نہ ہی اب مزید کچھ کہا جائے گا تاہم پارٹی کے تمام سینئر اراکین اس بات سے واقف ہیں کہ یہ اہم ترین تعیناتی ہے اور بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں