مردم شماری پر پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلئے وفاق متحرک

اپ ڈیٹ 08 مارچ 2023
وزیر نے کہا کہ کچھ قوم پرست عناصر مردم شماری کے اس عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں— تصویر: آن لائن
وزیر نے کہا کہ کچھ قوم پرست عناصر مردم شماری کے اس عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں— تصویر: آن لائن

وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے پاکستان ادارہ شماریات (پی بی ایس) اور نیشنل ڈیٹابیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے اعلیٰ حکام کو صوبے کے تحفظات دور کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے ملاقات کے لیے کراچی پہنچنے کی ہدایت کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ ہدایات حالیہ مردم شماری کے حوالے سے سندھ کے تحفظات دور کرنے میں مرکز کی ’ناکامی‘ پر پی پی پی رہنماؤں کی جانب سے حکمران اتحاد چھوڑنے کی دھمکی کے ردعمل میں دی گئیں۔

وفاقی وزیر نے ہدایات 7ویں مردم شماری مانیٹرنگ کمیٹی (سی ایم سی) کے ایک اجلاس کے دوران جاری کیں جس میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی، جو ملک کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے بلائی گئی تھی۔

اجلاس کے دوران یہ فیصلہ کیا گیا کہ مانیٹرنگ کمیٹی مؤثر رابطہ کاری اور مسائل کے فوری حل کے لیے اب ہر ہفتے میٹنگ کرے گی۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ انہوں نے پاکستان ادارہ شماریات کے سربراہ نعیم ظفر کو ہدایت کی ہے کہ وہ آج (بدھ) کو اپنی تکنیکی ٹیم کے ساتھ وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کریں تاکہ صوبائی حکومت کے تحفظات کو دور کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت ڈیجیٹل مردم شماری کے معاملے پر تمام صوبوں کو اعتماد میں لے گی تاکہ اس مشق کو غیر متنازع بنایا جا سکے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ڈیجیٹل مردم شماری کا پاکستان کے مستقبل پر اثر پڑے گا اور میں کسی قسم کے تنازع کا متحمل نہیں ہو سکتا اور اس کی شفافیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کروں گا۔

ڈیجیٹل مردم شماری کیلئے 34 ارب روپے مختص

احسن اقبال نے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ملک میں 34 ارب روپے کی خطیر لاگت سے ڈیجیٹل مردم شماری کی جا رہی ہے، انہوں نے اسے ایک ’بڑی قومی مشق‘ قرار دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسے کامیاب بنانا تمام اسٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہے۔

وفاقی وزیر نے مردم شماری کے عمل کو ہر ممکن حد تک شفاف بنانے کے لیے ہر کوشش کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر کوئی شراکت دار ہے، ہم اسے (مردم شماری کو) مشاورت سے مکمل کریں گے‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے مردم شماری کے حتمی نتائج کے اعلان کے لیے 30 اپریل کی آخری تاریخ مقرر کی تھی تاکہ اکتوبر میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو حلقہ بندیوں کی حد بندی مکمل کرنے کے لیے درکار چار ماہ کا وقت فراہم کیا جاسکے۔

وضاحت کیے بغیر وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ کچھ ’قوم پرست عناصر‘ مردم شماری کے اس عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔

وزیر نے یاد دلایا کہ مردم شماری اپریل 2021 میں مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے فیصلے کے مطابق کی جا رہی ہے جب عمران خان وزیر اعظم تھے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے گزشتہ مردم شماری کو مسترد کرنے کے بعد ہی انہوں نے آئین میں دیے گئے 10 سال کے بجائے اگلی مردم شماری صرف پانچ سال بعد کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔

مردم شماری پر سیاست

ان پیش رفتوں سے باخبر ذرائع نے پاکستان پیپلز پارٹی کے مردم شماری پر تحفظات کو ’نامناسب سیاست‘ قرار دیا۔

پی پی پی کی دھمکی کے جواب میں ذرائع نے دعویٰ کیا کہ پارٹی آئندہ انتخابات سے قبل سیاسی مصلحت کے تحت اس معاملے پر ’سیاست‘ کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی پی پی کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر اس نے مردم شماری پر سیاست جاری رکھی اور اسے متنازع بنایا تو مرکز کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ 2017 کی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کا اعلان کرے۔

پی پی پی رہنماؤں کے بیانات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اندرونی ذرائع نے کہا کہ ’اگر سیاست کرنی ہے تو 34 ارب روپے ایک فضول مشق پر خرچ کرنے کی کوئی منطق نہیں‘۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت فریقین کے جائز تحفظات دور کرنے کے لیے تیار ہے اور اس نے فیصلہ کیا ہے کہ خاندان کے سربراہ کو اس کے رجسٹرڈ خاندان کے افراد کی تعداد کے بارے میں موبائل فون پر پیغام کے ذریعے آگاہ کیا جائے گا۔

کراچی کے شہری علاقوں کی حد بندی

دوسری جانب ایم کیو ایم کی اس دھمکی کے بارے میں کہ اگر کراچی کی آبادی 4 کروڑ سے کم ظاہر کی گئی تو وہ مردم شماری کو قبول نہیں کرے گی، ایک سینئر حکومتی عہدیدار نے کہا کہ یہ معاملہ صوبائی حکومت کے دائرہ کار کا ہے، جو کراچی کے شہری علاقوں کی حد بندی کی ذمہ دار ہے۔

انہوں نے حد بندی کے معاملے کو صوبائی موضوع قرار دیا اور ایم کیو ایم کے مطالبے کو پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ جاری لڑائی کا نتیجہ قرار دیا۔

ایک سوال کے جواب میں عہدیدار نے ان خبروں کی تردید کی کہ حکومت پہلے ہی عام انتخابات میں تاخیر کا فیصلہ کر چکی ہے۔

تاہم عہدیدار نے کہا کہ ان کے پاس اختیار تھا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انتظامات کے لیے آئین کے مطابق 60 روز کے بجائے 90 روز کی مہلت دینے کے لیے قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے قبل آخری لمحات میں اسے تحلیل کردیتے۔

تبصرے (0) بند ہیں