مردان: توہین مذہب کے الزام میں شہری کا قتل، پولیس کی صورتحال کنٹرول میں ہونے کی یقین دہانی

اپ ڈیٹ 07 مئ 2023
یہ واقعہ گزشتہ شب ساول ڈھیر کے علاقے میں پی ٹی آئی کے جلسے کے دوران پیش آیا —فائل فوٹو: ناصر احمد خان
یہ واقعہ گزشتہ شب ساول ڈھیر کے علاقے میں پی ٹی آئی کے جلسے کے دوران پیش آیا —فائل فوٹو: ناصر احمد خان

خیبرپختونخوا کے ضلع مردان میں سیاسی جلسے کے دوران ایک شخص کو توہین مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں قتل کیے جانے کے ایک روز بعد پولیس کا کہنا ہے کہ شہر کی صورتحال کنٹرول میں ہے اور حکام نے تحقیقات شروع کردی ہیں۔

مردان کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ برائے آپریشنز روخانزیب خان نے بتایا کہ یہ واقعہ گزشتہ شب ساول ڈھیر کے علاقے میں پی ٹی آئی کے جلسے کے دوران پیش آیا۔

انہوں نے کہا کہ نگار عالم نامی ایک مقامی عالم نے جلسے کے اختتام پر دورانِ تقریر مبینہ طور پر توہین آمیز کلمات ادا کیے تھے جس کے ردعمل میں جلسے میں شریک سیکڑوں لوگوں نے اُن پر حملہ کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ہم نے دیکھا کہ علاقے میں لوگ مشتعل ہو چکے ہیں اور نگار عالم پر حملہ کرنے والے ہیں تو ہم اسے بازار (جہاں ریلی نکالی جا رہی تھی) میں موجود ایک دکان میں لے گئے لیکن لوگ دکان میں گھس گئے اور گھونسوں، مکوں اور لاتوں سے اس پر حملہ کر دیا اور اسی دوران نگار عالم کی موت واقع ہوگئی۔

علاوہ ازیں ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) نجیب الرحمٰن نے بتایا کہ بعد ازاں پولیس نے ہجوم کو منتشر کیا اور لاش تحویل میں لے لی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے جائے وقوع سے شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دیے ہیں اور تحقیقات جاری ہیں۔

نجیب الرحمٰن نے مزید کہا کہ واقعے کی ایف آئی آر تاحال درج نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔

واضح رہے کہ مردان میں توہین مذہب کے الزام میں کسی شخص کو قتل کیے جانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔

23 اپریل 2017 کو مردان میں 23 سالہ نوجوان مشال خان (جو عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کا طالب علم تھا) کو بھی توہین مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں تشدد اور گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔

مشال خان کو ان کی یونیورسٹی کے احاطے میں ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی۔

قیام پاکستان سے اب تک توہین مذہب کے الزام میں درجنوں شہریوں کا قتل

فروری 2022 میں پنجاب کے ضلع خانیوال کے دور دراز گاؤں میں ہجوم نے ایک شخص کو قرآن پاک کی مبینہ توہین کر نے پر پتھر مار کر قتل کردیا تھا۔

اسی طرح کا ایک واقعہ دسمبر 2021 میں پیش آیا، جب سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے مقامی فیکٹری کے منیجر پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کیا اور ان کی لاش نذرِ آتش کردی تھی۔

جنوری 2022 میں سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ 1947 سے 2021 تک توہین مذہب کے الزامات میں 18 خواتین اور 71 مردوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا، اب تک 107 خواتین اور ایک ہزار 308 مردوں پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سال 2011 سے 2021 کے دوران ایک ہزار 287 شہریوں پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے۔

محقیقین کا ماننا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوگی کیونکہ توہین مذہب کے تمام کیسز میڈیا پر رپورٹ نہیں کیے جاتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ 70 فیصد سے زائد کیسز پنجاب میں رپورٹ ہوئے۔

اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہےکہ 55 کیسز دارالحکومت اسلام آباد میں دائر کیے گئے، جو خیبر پختونخوا اور کشمیر میں رپورٹ ہونے والے مجموعی کیسز سے زیادہ ہیں۔

علاوہ ازیں پنجاب میں سب سے زیادہ ایک ہزار 98 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ سندھ دوسرے نمبر پر ہے جہاں توہین مذہب کے 177 کیسز رپورٹ ہوچکے ہی، اس زمرے میں خیبر پختونخوا میں 33، بلوچستان میں 12 جبکہ آزاد جموں و کشمیر میں 11 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال عدالت نے غیر قانونی قرار دیا ہے، اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے قانون سازوں کو تجویز دی تھی کہ موجودہ قانون میں ترمیم کریں تاکہ ایسے افراد جو توہین مذہب کے غلط الزامات لگاتے ہیں انہیں یکساں سزا دی جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین 1860 میں انگریزوں کے دور میں بنائے گئے تھے۔

ابتدائی طور پر 1927 میں تعزیرات ہند کے تحت توہین مذہب کے قوانین 295، 296، 297 اور 298 متعارف کروائے گئے، بعد ازاں مسلم کارپینٹر علم الدین کے کیس کے بعد شق 295 میں ایک اور شق ضمنی شک 295 اے شامل کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں