سیالکوٹ: توہین مذہب کے الزام پر ہجوم کا سری لنکن شہری پر بہیمانہ تشدد، قتل کے بعد آگ لگادی

اپ ڈیٹ 04 دسمبر 2021
مشتعل ہجوم کا نشانہ بننے والافیکٹری منیجرکا تعلق سری لنکا سے تھا—فوٹو:عمران صادق
مشتعل ہجوم کا نشانہ بننے والافیکٹری منیجرکا تعلق سری لنکا سے تھا—فوٹو:عمران صادق
کچھ ویڈیوز میں ہجوم کو نعرے بازی کرتے ہوئے بھی سنا جاسکتا ہے—تصویر: ڈان نیوز
کچھ ویڈیوز میں ہجوم کو نعرے بازی کرتے ہوئے بھی سنا جاسکتا ہے—تصویر: ڈان نیوز

سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے مقامی فیکٹری کے منیجر پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کیا اور ان کی لاش نذرِ آتش کردی۔

سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عمر سعید ملک نے کہا کہ مقتول کی شناخت پریانتھا کمارا کے نام سے ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تشدد کرکے ڈاکوؤں کو قتل کرنے والے200 افراد کے خلاف مقدمہ

سیالکوٹ میں واقعےکے چند گھنٹے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی حسان اور آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی امور حافظ طاہر محمود اشرفی نے علما کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ اس وحشت پر پاکستانی قوم، پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے علما، مشائخ اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کی طرف سے مذمت کرتا ہوں۔

—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں اس واقعے نے اسلام کو بھی بدنام کیا ہے اور ایسا کرنے والوں نے پاکستان کو بھی بدنام کیا ہے، اسلام امن، سلامتی، محبت اور روادری کا دین ہے اور رسول اللہﷺ رحمت اللعالمین ہیں۔

طاہر اشرفی نے کہا کہ خدانخواستہ کہیں اگر توہین ناموس رسالت ہویا توہین مذہب ہوتو اس حوالے سے ہمارے ہاں قوانین موجود ہیں، روز اس پر بات کرتے ہیں اور ان معاملات کو دیکھتے ہیں جومعاملات سنجیدہ ہوتے ہیں وہ عدالتوں میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے یہ کام کیا ہے انہوں نے نہ تو پاکستان کی خدمت کی ہے اور نہ ہی اسلام کی خدمت کی ہے، حتیٰ کہ انہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کے احکامات اور رسول اکرمﷺکی سیرت طیبہ کی بھی مخالفت کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تمام مذہبی قوتیں، تمام مکاتب فکر کے علما و مشائخ اس کی مذمت کرچکے ہیں اور جو ممکن ہوا کیا جائے گا، جنہوں نے یہ کام کیا ہے انہوں نے پاکستان میں موجود اسلامی قوانین کو نقصان پہنچایا ہے اور کوئی خدمت نہیں کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس بربریت سری لنکا کے عوام اور بالخصوص مقتول کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور میں اس واقعے پر شرمندہ ہوں کیونکہ انہوں نے اسلام کے چہرے کو مسخ کیا ہے۔

طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے تمام مکاتب فکر کے علما اور مشائخ مشترکہ پریس کانفرنس بھی کریں گے اور اسی ہفتے سری لنکا کے سفارت خانے میں تعزیت کے لیے بھی جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب تک 50 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے مزید ملزمان کو بھی گرفتار کیا جائے گا اور انسداد دہشت گردی ایکٹ سیون اے ٹی اے کے تحت ایف آئی آر بھی ہوگی۔

مزید پڑھیں: فیصل آباد: ’شور مچانے پر‘ والد نے 6 سالہ بیٹی کو تشدد کر کے ’قتل‘ کردیا

اس موقع پر آئی جی پنجاب نے کہا کہ پولیس کو ابتدائی طور پر 11:26 بجے شکایت موصول ہوئی تھی اور اہلکار 11:46 بجے جائے وقوع پر پہنچے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم تفتیش کررہے ہیں اور پولیس کے کام کو بھی دیکھ رہے ہیں کہ کہیں سستی تو نہیں ہوئی۔

آئی جی نے کہا کہ معاملہ حساس نوعیت اور دلخراش ہے۔

حسان خاور نے بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرنے کی کوشش کر ہے ہیں تاکہ ملزمان کی شناخت ہوسکے، ریجنل پولیس افسر اور گجرانوالا کمشنر جائے وقوع پر موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی جی پنجاب نے 48 گھنٹوں کے اندر واقعے کی رپورٹ جمع کرانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔

بعد ازاں پنجاب پولیس نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ ‘سیالکوٹ واقعے میں پولیس نے تشدد کرنے اور اشتعال انگیزی میں ملوث ملزمان میں سے ایک مرکزی ملزم فرحان ادریس کو گرفتار کر لیا ہے’۔

پولیس نے کہا کہ ‘100 سے زائد افراد کو حراست میں لےلیا گیا ہے، آئی جی پنجاب سارے معاملہ کی خود نگرانی کر رہے ہیں، دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں’۔

دوسری جانب سری لنکا کی وزارت خارجہ نے بیان میں کہا کہ انہیں پاکستانی حکام سے توقع ہے کہ وہ تفتیش اور انصاف کو یقینی بنانے کے لیے مطلوبہ کارروائی کریں گے۔

سری لنکا کے میڈیا کے ادارے نیوز فرسٹ نے وزارت خارجہ کے ترجمان سوگیشوارا گونارتنا کے حوالے سے کہا کہ اسلام آباد میں سری لنکا کے ہائی کمیشن واقعے کی تفصیلات کی تصدیق کے لیے پاکستانی حکام سے رابطے میں ہے۔

فیکٹری منیجر پر حملہ

واقعہ سیالکوٹ کے وزیرآباد روڈ پر پیش آیا جہاں مبینہ طور پر نجی فیکٹریوں کے ورکرز نے ایک فیکٹری کے ایکسپورٹ مینیجر پر حملہ کر کے اسے قتل کیا اور اس کے بعد آگ لگادی۔

سیالکوٹ پولیس کے سربراہ ارمغان گوندل نے غیرملکی خبرایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ فیکٹری کے ملازمین نے مقتول پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے پوسٹر کی بے حرمتی کی جس پر پیغمبراسلام حضرت محمدﷺ کا نام درج تھا۔

ارمغان گوندل نے کہا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق مقتول کو منیجر کو فیکٹری کے اندر نشانہ بنایا گیا۔

ڈی پی او عمر سعید ملک کا کہنا تھا کہ ہجوم کی جانب سے سری لنکن شہری کو قتل کرنے کی اصل وجوہات جاننے کی کوشش کر رہے ہیں اور لاش پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال منتقل کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کوئٹہ: ہجوم کے تشدد سے نوجوان ہلاک، 2 ساتھی زخمی

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جائے وقوع پر سیکڑوں افراد موجود ہیں جبکہ کچھ ویڈیوز میں ہجوم کو نعرے بازی کرتے ہوئے بھی سنا جاسکتا ہے۔

جائے وقوع پر جلتی ہوئے نعش کے ارد گرد زیادہ تر افراد اپنے موبائل فون پر ویڈیوز بناتے ہوئے نظر آئے۔

آر پی او گجرانوالا عمران احمر نے صحافیوں کو بتایا کہ پولیس کی جانب سے واقعے کی تفتیش کی جارہی ہے اور تمام ثبوت جمع کرنے کے بعد تفصیلات جاری کی جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور اس وقت تفتیش سے قبل وجوہات کا تعین کرنا قبل از وقت ہوگا۔

بعد ازاں سیالکوٹ پولیس نے بیان میں کہاتھا کہ پولیس نے مشتعل ہجوم کی جانب سے کیے گئے واقعے کی تفتیش شروع کردی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ نامعلوم افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی سیکن 7 اور 431، 427، 149، 147، 297، 201 اور 302 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

سیالکوٹ پولیس نے کہا کہ ڈی پی او سیالکوٹ کی سربراہی میں تفتیش کے لیے 10 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے ملزمان کی شناخت کرے گی اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے گی۔

واقعے پر مختلف شخصیات کی جانب سے اظہار مذمت

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر قتل کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اسے ’انتہائی افسوس ناک واقعہ‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ‘آئی جی پنجاب کو واقعے کی تفتیش کی ہدایت کی ہے، کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی، یقین دلاتا ہوں کہ واقعے میں جو بھی اس غیرانسانی واقعے میں ملوث ہیں وہ نہیں بچیں گے’۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ سیالکوٹ میں ہجوم کی جانب سے بےگناہ قتل قابل مذمت اور شرم ناک ہے، اس طرح کا ماورائے قانون قتل کسی قیمت معاف نہیں کیا جاسکتا ہے۔

آئی ایس پی آر کےمطابق آرمی چیف نے اس وحشت ناک واقعے کے ملزمان کی گرفتاری کے لیے سول انتظامیہ کی ہر ممکن مدد کرنے کی ہدایت کردی۔

اس سےقبل وزیراعلیٰ نے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) پنجاب سے رپورٹ طلب کرلی اور واقعے کی اعلیٰ سطح کی تفتیش کا حکم دیا تھا۔

وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ واقعے کی ہر پہلو سے تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کی جائے، قانون ہاتھ میں لینے والے عناصر کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، حکومت قانون شکن عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی۔

سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عمر سعید ملک نے کہا کہ مقتول شخص کی شناخت پریانتھ کمارا کے نام سے ہوئی جو سری لنکن شہری تھا۔

سیالکوٹ پولیس کے ترجمان نے کہا کہ ابتدائی تفتیش کے بعد تفصیلات میڈیا کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔

وزیراعلیٰ نے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) پنجاب سے رپورٹ طلب کرلی اور واقعے کی اعلیٰ سطح کی تفتیش کا حکم دیا ہے۔

دوسری جانب انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب راؤ سردار علی خان نے بھی واقعے کا نوٹس لے کر ریجنل پولیس افسر (آر پی او) گوجرانوالہ کو موقع پر پہنچنے کی ہدایت کی۔

آئی جی کا کہنا تھا کہ ’ڈی پی او سیالکوٹ جائے وقوع پر موجود ہیں اور واقعے کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات کی جانی چاہیے‘۔

وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے ٹوئٹ میں واقعے کو الم ناک اور قابل مذمت قرار دے دیا۔

انہوں نے کہا کہ ‘مشتعل ہجوم کے جرائم کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں کیونکہ جرائم سے نمٹنے کے لیے ریاستی قوانین موجود ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘حکومت پنجاب کی کارروائی مکمل اور غیر مبہم ہونی چاہیے’۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے واقعے کی مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ ‘سیالکوٹ میں آج ہونے والا واقعہ انتہائی قابل مذمت اور افسوس ناک ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیاجائے، یہی وقت ہے کہ نبی اکرم ﷺکے امن، محبت اور رحم کے پیغام پر صحیح معنوں میں کاربند ہوا جائے’۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے بیان میں سیالکوٹ واقعے کو دلخراش قرار دیا۔

مریم نواز نےکہا کہ ‘سیالکوٹ میں ہونے والے دل خراش واقعے نے دل چیر کے رکھ دیا، کیا یہ درندگی ہماری پہچان اور ہمارا اور آنے والی نسلوں کامستقبل ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘کیا یہ ملک ایک محفوظ ملک تصور ہو گا، حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں، انسان سوال کرے بھی تو کس سے کرے’۔

سوشل میڈیا صارفین نے بھی واقعےپر غم و غصے کا اظہار کیا۔

انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی واقعے کا نوٹس لیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بیان میں کہا کہ مشتعل ہجوم کی جانب سے سیالکوٹ میں سری لنکا سے تعلق رکھنے والے فیکٹری منیجر کا مبینہ طور پر توہین مذہب پر قتل الم ناک ہے۔

یاد رہے کہ سیالکوٹ میں 2010 میں بھی ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا جب ہجوم نے دو نو عمر بھائیوں کو ڈاکو قرار دے کر بہیمانہ تشدد کر کے قتل کردیا تھا۔

مذکورہ واقعے کی موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیوز جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو ملک بھر میں حیرت اور صدمے کی لہر دوڑ گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Kashif Dec 03, 2021 04:02pm
Sad