نگران وزیراعظم کیلئے منتخب کردہ 5 ناموں میں ’صرف سیاستدان‘ شامل نہیں

اپ ڈیٹ 02 اگست 2023
جسٹس تصدق جیلانی نے 2013 سے 2014 تک ملک کے21ویں چیف جسٹس کے طور پر خدمات انجام دیں — فوٹو: ورلڈ جسٹس پروجیکٹ
جسٹس تصدق جیلانی نے 2013 سے 2014 تک ملک کے21ویں چیف جسٹس کے طور پر خدمات انجام دیں — فوٹو: ورلڈ جسٹس پروجیکٹ

اپنی آئینی مدت ختم ہونے سے چند روز قبل حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے مبینہ طور پر نگران وزیراعظم کے لیے 5 ناموں کی فہرست کو حتمی شکل دے دی ہے جب کہ فہرست میں شامل تمام لوگ سیاستدان نہیں ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی پارٹی پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے نگران سیٹ اپ کی قیادت کے لیے ٹیکنوکریٹس کے بجائے سیاست دانوں میں سے کسی نام پر غور کرنے پر اتفاق رائے ظاہر کیا تھا۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے نگران وزیر اعظم کے لیے 5 نام شارٹ لسٹ کر لیے ہیں، یہ سب نام سیاستدانوں کے ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ امیدواروں کے ناموں پر دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے تبادلہ خیال بھی کیا جائے گا، تاہم حتمی فیصلہ اتحادی رہنما کریں گے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کریں گے۔

اس صورتحال کے باوجود دونوں اتحادیوں کے درمیان جن ناموں پر اتفاق رائے پایا گیا، اس فہرست میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا نام بھی شامل ہے۔

وفاقی کابینہ کے ایک رکن کے مطابق سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کا نام نگران وزیراعظم کے لیے نامزد افراد میں شامل ہے، جسٹس تصدق جیلانی نے 2013 سے 2014 تک ملک کے 21 ویں چیف جسٹس کے طور پر خدمات انجام دیں۔

نگران وزیر اعظم کون ہوگا، یہ سوال کئی ہفتوں سے ملک کی سیاست میں زیر بحث ہے، اور اس حوالے سے کئی ناموں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

چند روز قبل وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا نام بھی بطور نگران وزیراعظم کے طور پر سامنے آیا تھا، ان کے بارے میں یہ کہا جارہا تھا کہ انہیں نواز شریف اور شہباز شریف دونوں کا اعتماد حاصل ہے، اس لیے موجودہ وزیر خزانہ عبوری سیٹ اپ چلانے کے لیے بہترین شخص ہو سکتے ہیں۔

ایک تاثر یہ بھی تھا کہ اسحٰق ڈار کا نام باضابطہ طور پر نامزد کرنے سے قبل دیگر اسٹیک ہولڈرز کا ردعمل دیکھنے کے لیے لیک کیا گیا، اس اقدام کا منفی اثر اس وقت سامنے آیا جب دیگر اتحادی شراکت داروں، خاص طور پر پیپلز پارٹی کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی۔

اس کے علاوہ صحافی محسن بیگ اور سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ کے ناموں کی بھی اس عہدے کے لیے بازگشت سنی گئی، ان کے نام سامنے آنے کی وجہ ان افراد کی اسٹیبلشمنٹ کے حامی ہونے کی شہرت کو بتایا گیا۔

تاہم پیر کے روز وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اصرار کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ابھی تک عبوری وزیر اعظم کے لیے کسی امیدوار کا انتخاب یا اسے مسترد نہیں کیا۔

وفاقی وزیر اطلاعات سے ان رپورٹس پر ردعمل دینے کے لیے کہا گیا کہ جسٹس تصدق جیلانی کے نام پر بھی اس عہدے کے لیے غور کیا جا رہا ہے، لیکن انہوں نے ڈان کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں