قومی اسمبلی: یونیورسٹیوں کے قیام کے بلوں پر وزیر تعلیم کا ’متعصبانہ رویہ‘ تنازع کا سبب بن گیا

اپ ڈیٹ 02 اگست 2023
وزیر تعلیم نے ڈپٹی چیئرمین سے درخواست کی کہ تمام 13 بلز متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیے جائیں—فوٹو: ڈان نیوز
وزیر تعلیم نے ڈپٹی چیئرمین سے درخواست کی کہ تمام 13 بلز متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیے جائیں—فوٹو: ڈان نیوز

ملک میں یونیورسٹیوں کے قیام کے بل کے معاملے پر وزیر تعلیم رانا تنویر حسین کے متعصبانہ رویے نے قومی اسمبلی میں تناؤ کی صورتحال پیدا کر دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس صورتحال کے سبب ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرم درانی کو پہلے مجبوراً اجلاس میں وقفے کا اعلان کرنا پڑا اور بعد میں بل پر ووٹنگ کے عمل کو مکمل کیے بغیر اجلاس بغیر کارروائی کے ملتوی کر دیا۔

وزیر تعلیم کو اس وقت شرمندگی اٹھانی پڑی جب حکومتی بینچوں کے اراکین نے مسلم لیگ (ن) کی طاہرہ اورنگزیب کی جانب سے قصور میں اخوت انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے لیے پیش کیے گئے بل کی مخالفت کی حالانکہ رانا تنویر حسین اسے منظور کروانے کے لیے تیار تھے۔

اراکین نے بل کی مخالفت میں ووٹ ڈالے کیونکہ اس سے قبل وزیر تعلیم کی جانب سے اراکین اسمبلی کے اسی طرح کے بلوں کی مخالفت اس بنیاد پر کی گئی تھی کہ ایوان کو جامعات کے قیام کے بل کو ضابطہ اخلاق کی تکمیل اور ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی پیشگی منظوری کے بغیر منظور نہیں کرنا چاہیے۔

وزیر تعلیم نے ڈپٹی چیئرمین سے درخواست کی کہ تمام 13 بلز متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیے جائیں جو اراکین اسمبلی نے یونیورسٹیوں کے قیام کے لیے متعارف کرائے تھے۔

ایوان میں وزیر تعلیم اور پیپلز پارٹی کے قادر خان مندوخیل کے درمیان مختصر نوک جھوک بھی دیکھنے میں آئی جب رانا تنویر نے ببرک انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، آرٹ اینڈ ٹیکنالوجی بل 2023 کے قیام کے بل کی مخالفت کی جس کی وجہ سے ڈپٹی چیئرمین نے اس بل پر کارروائی مؤخر کر دی۔

تاہم جب زاہد اکرم درانی نے وزیر تعلیم سے طاہرہ اورنگزیب کے پیش کردہ بل کو منظور کرنے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے اسے منظور کر لیا، قادر خان مندوخیل نے وزیر کے اس عمل پر احتجاج کرتے ہوئے اسے امتیازی رویہ قرار دیا اور چیخنا چلانا شروع کردیا۔

اس پر وزیر تعلیم نے کہا کہ براہ کرم مجھے اپنا کام کرنے دیں، میں اپنے کام کو بہتر طریقے سے جانتا ہوں، ڈپٹی چیئرمین ان کو اس عمل میں مداخلت سے روکیں، تاہم زاہد اکرم درانی نے جب اس بل کو ووٹ کے لیے پیش کیا اور اس کی منظوری کا اعلان کرنے والے تھے تو قادر خان مندوخیل نے ان کے فیصلے کو چیلنج کیا اور ووٹنگ کے لیے ایوان میں موجود اراکین کی گنتی کا مطالبہ کیا۔

لہٰذا زاہد اکرم درانی نے ووٹنگ کے لیے اراکین کی گنتی کا حکم دیا لیکن جب اسمبلی کا عملہ گنتی میں مصروف تھا تو نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ مسلم لیگ (ن) کے کچھ ارکان بھی اپنی نشستوں سے نہ اٹھے جس سے وزیر تعلیم کو سخت شرمندگی اٹھانی پڑی، تاہم ڈپٹی اسپیکر نے نماز ظہر کے لیے 20 منٹ کے وقفے کا اعلان کر کے حکومت کو مزید شرمندگی سے بچا لیا، تقریباً ایک گھنٹے کے بعد زاہد اکرم درانی ایوان میں تشریف لائے اور اجلاس (آج) بدھ کی صبح تک ملتوی کرنے کا اعلان کردیا۔

قبل ازیں ایوان میں 14 پرائیویٹ ممبرز بل پیش کیے گئے جن میں سے 13 ملک کے مختلف حصوں میں مختلف یونیورسٹیوں کے قیام کے حوالے سے تھے، قومی اسمبلی نے گزشتہ ہفتے ایک ہی دن میں 24 یونیورسٹیوں کے قیام کے بل کی منظوری دی تھی۔

وزیر تعلیم نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس دن موجود نہیں تھے جب اسمبلی نے 24 بل پاس کیے تھے ورنہ وہ ان کی مخالفت کرتے، افسوس ہے کہ یونیورسٹیاں ایک ایک کمرے کے گھروں میں چلائی جارہی ہیں اور ایچ ای سی کی جانب سے ان کی ڈگریوں کی تصدیق سے انکار کرنے پر طلبہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

وزیر تعلیم نے یونیورسٹیوں کے قیام کا بل پیش کرنے پر اراکین اسمبلی پر بالواسطہ طنز کرتے ہوئے کہا کہ میں اراکین اسمبلی کی تعلیم سے محبت کا اعتراف کرتا ہوں جوکہ اس حقیقت سے ظاہر ہے کہ کئی ارکین بیک وقت 4 یا 5 یونیورسٹیوں کے چارٹر کی منظوری کے خواہاں ہیں۔

اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر نے وزیر تعلیم کو بتایا کہ جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ایک ہزار یونیورسٹیاں ہیں، آپ کی جانب سے یونیورسٹیوں کے قیام کی مخالفت کرنے کے اقدام پر حیرت ہے۔

تاہم وزیر تعلیم نے کہا کہ وہ یونیورسٹیوں کے قیام کے خلاف نہیں ہیں، انہوں نے اسپیکر سے درخواست کی کہ پیش کیے گئے تمام بلز کو مزید غور کے لیے کمیٹی کو بھیج دیا جائے۔

اسلحہ لائسنس کی تجدید اور اجرا میں تاخیر

ارکان اسمبلی نے ایک بار پھر اسلحہ لائسنسوں کی تجدید اور اجرا میں تاخیر کا معاملہ اٹھایا، ڈپٹی اسپیکر نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی کہ تمام پرانے اسلحہ لائسنسوں کی تجدید کی جائے، چاہے ان کے اجراء کی تاریخ کچھ بھی ہو۔

قومی اسمبلی نے گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا نام فیروز خان نون ایئرپورٹ رکھنے اور سرکاری و نجی اداروں میں ملازمین کو کم از کم اجرت کی ادائیگی یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنے سمیت 3 قراردادیں بھی منظور کیں۔

تبصرے (0) بند ہیں