توانائی، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے سے جولائی میں مہنگائی کی شرح 28.3 فیصد ریکارڈ

02 اگست 2023
آئی ایم ایف نے مالی سال 2024 کے لیے اوسط سی پی آئی 25.9 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
آئی ایم ایف نے مالی سال 2024 کے لیے اوسط سی پی آئی 25.9 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) سے کی جانے والی پیمائش کے مطابق مہنگائی کی شرح رواں مالی سال کے پہلے ماہ میں 28.3 فیصد تک پہنچ گئی جس کی بنیادی وجہ اشیائے خورونوش اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔

تاہم ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جون کے مقابلے میں اس میں معمولی کمی ریکارڈ کی گئی ہے جب یہ شرح 29.4 تھی، ادارہ شماریات کی جانب سے گزشتہ روز جاری کردہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی میں جولائی میں 3.5 فیصد اضافہ ہوا۔

جولائی میں مہنگائی بنیادی طور پر بجلی کے چارجز میں 39.88 فیصد اضافے کی وجہ سے ہوئی جبکہ گیس کی قیمتوں میں سالانہ بنیادوں پر 62.82 فیصد اور گندم کے آٹے میں 102.43 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے مالی سال 2024کے لیے اوسط سی پی آئی 25.9 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے، جو پچھلے سال کی 29.6 فیصد سے نمایاں طور پر کم ہے، حکومت نے رواں مالی سال کے لیے سالانہ مہنگائی کا ہدف 21 فیصد کا تخمینہ لگایا ہے۔

آئی ایم ایف کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مالی سال 2024 کی چوتھی سہ ماہی میں مہنگائی 20 فیصد سے نیچے آنے کی توقع ہے۔

مالی سال 2023 میں سالانہ مہنگائی 29.18 فیصد پر رہی اور روپے کی قدر میں شدید کمی، مقامی سطح پر ٹیکسوں اور عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے یہ بجٹ میں طے کیے گئے ہدف (11.5) فیصد کو عبور کرگئی، مالی سال 2022 میں مہنگائی کی شرح 12.15 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

2022 کے وسط سے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے جب قرض کے اجرا کے لیے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط قبول کرکے مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت حکومت نے سخت اقدامات اٹھائے۔

گزشتہ سال جون سے جنوری تک مہنگائی 20 فیصد سے اوپر رہی، پھر فروری میں یہ 31.6 فیصد تک پہنچ گئی، مارچ میں 35 فیصد سے تجاوز کر گئی، اپریل میں بڑھ کر 36.4 فیصد، مئی میں 37.97 فیصد اور جون میں 29.4 فیصد ہو گئی جبکہ جولائی 2022 میں یہ 24.93 فیصد رہی۔

وزارت خزانہ کے مطابق عالمی اجناس کی قیمتوں کی صورتحال سازگار ہے اور اس سے روپے کی قدر میں کمی کے منفی اثرات کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

جولائی میں اشیائے خورونوش کی مہنگائی شہری اور دیہی علاقوں کے لیے بالترتیب 40.2 فیصد اور 41.3 فیصد رہی جبکہ دیگر اشیا کی مہنگائی شہری علاقوں میں 17.3 فیصد اور دیہی علاقوں میں 22 فیصد رہی۔

جلد خراب نہ ہونے والی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں جولائی میں 42.14 فیصد اضافہ دیکھا گیا جبکہ خراب ہونے والی اشیائے خورونوش میں 23.51 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

مہنگائی کی بنیادی شرح شہری علاقوں میں 18.4 فیصد اور دیہی علاقوں میں 24.6 فیصد رہی، حکومت نے شرح سود کو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح (22 فیصد) تک بڑھا دیا ہے۔

شہری علاقوں میں کھانے پینے کی جن اشیا کی قیمتوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں جولائی میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ان میں گندم کا آٹا (102.43 فیصد)، چائے (97.26 فیصد)، چاول (68.87 فیصد)، گندم (66.58 فیصد)، آلو (60.66 فیصد)، چکن (58.13 فیصد)، چینی (56.45 فیصد)، گندم کی مصنوعات (55.96 فیصد)، پھلیاں (47.5 فیصد)، گڑ (44.57 فیصد)، دال مونگ (43.82 فیصد)، دال ماش (41.06 فیصد)، تازہ دودھ (30 فیصد)، تازہ سبزیاں (25.07 فیصد)، تازہ پھل (24.02 فیصد)، گوشت (18.25 فیصد) اور کوکنگ آئل (10.62 فیصد) شامل ہیں۔

اشیائے خورونوش کے علاوہ دیگر مصنوعات جن کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ان میں بجلی کے چارجز (39.88 فیصد)، ٹرانسپورٹ سروسز (4.01 فیصد)، ہسپتالوں کی سروسز (3.60 فیصد)، واشنگ صابن/ڈیٹرجنٹ/ماچس (3.06 فیصد)، تعمیراتی مواد (2.83 فیصد)، پوسٹل سروسز (2.35 فیصد)، صفائی اور لانڈرنگ (2.08 فیصد)، دانتوں کی سروسز (1.79 فیصد)، گھر کا کرایہ (1.37 فیصد)، تفریح اور ثقافت (1.36 فیصد)، گھریلو سامان (1.30 فیصد)، پلاسٹک کی مصنوعات ( 1.16 فیصد) اور میڈیکل ٹیسٹ (1.08 فیصد) شامل ہے۔

ایندھن کی بلند قیمتوں نے پیداوار اور نقل و حمل کے اخراجات میں اضافہ کیا ہے، جس سے خوراک مزید مہنگی ہو گئی ہے، مہنگی کھاد نے کاشتکاروں کے لیے ضروری سامان کا حصول بھی مشکل بنا دیا ہے، بھاری درآمدی لاگت اور سویا بین کی درآمد پر پابندیوں کی وجہ سے پولٹری انڈسٹری کو بحران کا سامنا ہے۔

اگرچہ تیسری سہ ماہی میں زراعت سے متعلقہ اشیا کی عالمی قیمتیں کم ہونا شروع ہوگئیں تھیں تاہم روپے کی قدر میں کمی اور ایندھن کی بلند قیمتوں نے اس کے اثرات مقامی منڈیوں میں ظاہر ہونے سے روک دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں