ٹریفک پولیس نے سندھ ہائی کورٹ کے بتایا کہ کراچی کے مختلف مقامات پر چلنے والے 131 غیر قانونی پارکنگ مقامات کی نشاندہی کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی جی ٹریفک نے جسٹس ندیم اختر اور جسٹس محمد عبد الرحمن پر مشتمل ڈویژن بینچ کو ان تفصیلات سے آگاہ کیا۔

آخری سماعت پر سندھ ہائی کورٹ نے شہر میں غیر قانونی چارج شدہ پارکنگ چلانے کے اوپر انتظامیہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اعلی عہدیداران کو طلب کیا تھا۔

جب بینچ نے صوبائی شہر کے مختلف حصوں میں سڑکوں، فٹ پاتھوں اور دیگر عوامی مقامات پر چارج شدہ پارکنگ کے خلاف دائر ایک جیسی درخواستوں کی سماعت کی تواس وقت ڈی آئی جی ٹریفک اور دیگر حکام موجود تھے۔

اپنی رپورٹ میں ڈی آئی جی نے کہا کہ کراچی ٹریفک پولیس کا بنیادی کام سڑکوں پر ٹریفک کو کنٹرول / ریگولیٹ کرنا اور گاڑیوں کے قوانین کا نفاذ ہے۔

وہ اس بات پر قائم رہے کہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی)، ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن(ڈی ایم سی) اور کنٹونمنٹ بورڈز چارج شدہ پارکنگ کے کنٹریکٹس فراہم کر رہے تھے اور ٹریفک پولیس نے متعدد اجلاسوں میں ان حکام کے سامنے اس معاملے کو اٹھایا اور ان سے کہا کہ وہ ایسے کنٹریکٹس کی منظوری سے پہلے ٹریفک پولیس کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔

بینچ کے ایک مشاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے، جس میں کہا گیا تھا کہ نجی افراد ابھی تک ٹریفک پولیس کے تعاون سے غیر قانونی پارکنگ مقامات چلا رہے ہیں ، ڈی آئی جی نے رپورٹ میں بتایا کہ ٹریفک پولیس غیر قانونی پارکنگ سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق ٹریفک پولیس نے یکم جنوری سے 3 دسمبر کے درمیان شہر میں غیر قانونی پارکنگ کے حوالے سے 81 کیسز رجسٹر کیے، 103 لوگوں کو گرفتار کیا اور 83 ہزار 797 چالان کاٹے۔

اس میں کہا گیا کہ خلاف ورزی کرنے والوں پر 5 کروڑ روپے سے زائد کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا اور اسی عرصے کے دوران 19ہزار 836 کار اور 85 ہزار275 موٹر سائیکلیں غیر مجاز پارکنگ مقامات سے اٹھائی گئیں۔

ڈی آئی جی نے یہ بھی بتایا کہ ٹریفک پولیس نے شہر میں 131 غیر قانونی پارکنگ مقامات کی بھی نشاندہی کی، ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تفصیلات دیگر شہری انتظامیہ کے افسران کو بھی فراہم کردی گئی ہیں۔

بینچ کے سامنے پیش کردہ اپنی رپورٹ میں کے ایم سی کے ڈائریکٹر محکمہ چارج شدہ پارکنگ نے بتایا کہ اس وقت کے ایم سی نے 46 مقامات چارج شدہ پارکنگ کے لیے مختص کیے ہیں اور انہیں ٹھیکیداروں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے، جنہیں ایک کھلی نیلامی کے ذریعے ٹھیکے دیے گئے۔

تاہم سندھ ہائی کورٹ نے یہ نوٹ کیا کہ کے ایم سی ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا میں کہا گیا کہ اس نے اپنے دائرہ اختیار میں 76 چارج شدہ پارکنگ سائٹس کو برقرار رکھا ہوا ہے۔

کے ایم سی کے افسر نے کہا کہ میئر کراچی نے حال ہی میں ڈی آئی جی ٹریفک کے ساتھ غیر قانونی پارکنگ اور شہر میں ٹریفک کے حوالے سے گفتگو کی اور یہ فیصلہ کیا کہ کے ایم سی کا محکمہ چارج شدہ پارکنگ لین مارکنگ کرے گا تاکہ تمام گاڑیاں نشان زدہ جگہ پر کھڑی کی جائیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کے ایم سی سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 اور چارجڈپارکنگ 1975 کے قانون کے تحت پارکنگ فیس موصول کر رہی ہے۔

کے ایم سی نے یہ بھی کہا کہ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) بھی کئی مقامات پر بنا کسی اتھارٹی یا اختیار کے پارکنگ فیس موصول کر رہی ہے اور سندھ ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ وہ کے ڈی اے اور ڈی ایم سیز کے ان اختیارات کا جائزہ لے۔

سندھ ہائی کورٹ نے کے ایم سی اور ٹریفک پولیس کو شہر میں غیر قانونی اور غیر مجاز پارکنگ کے خلاف کارروائی کرنے اور 13 دسمبر تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دے دی۔

تبصرے (0) بند ہیں