ملک میں 50 فیصد سے زائد براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) پاور سیکٹر میں آئی، جن میں زیادہ تر کول پاور پروجیکٹس شامل ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال 2018 سے نومبر 2023 تک کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری فنانسنگ اور مینوفیکچرنگ جیسے چند شعبوں تک محدود رہی جبکہ کوئلے سے چلنے والے توانائی کے منصوبوں میں سب سے زیادہ ایف ڈی آئی موصول ہوئی۔

موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کے باوجود لگتا ہے کہ پاکستان کوئلے سے چلنے والے بجلی کے منصوبوں سے گریز نہیں کرسکے گا، جن میں سے زیادہ تر کی فنڈنگ چین نے کی ہے۔

مارچ 2023 میں پاکستان ڈیموکریٹک (پی ڈی ایم) کی سابقہ حکومت نے تھرپارکر میں کوئلے سے چلنے والے دو منصوبوں کا افتتاح کیا تھا، ان میں 1320 میگا واٹ کا شنگھائی الیکٹرک اور 330 میگا واٹ کا تھل نوا پاور پلانٹ شامل ہے۔

ان دونوں منصوبوں سے سالانہ 11 ارب 24 کروڑ یونٹ سستی بجلی پیدا ہوگی، جبکہ ان میں براہ راست 3 ارب 53 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی، تھر میں کوئلے سے چلنے والے منصوبوں سے بجلی کی پیداوار 3 ہزار 300 میگا واٹ تک بڑھائی جائے گی۔

مالی سال 2018 سے اب تک پاور سیکٹر میں 3 ارب 89 کروڑ ڈالر کی فنڈنگ موصول ہوئی جبکہ رواں مالی سال 2024 کے ابتدائی 5 ماہ کے دوران یہ فنڈنگ 26 کروڑ 39 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئی، جس کے بعد کل آمد 4 ارب 15 کروڑ ڈالر رہی۔

بجلی کے شعبے میں موصول ہونے والی فنڈنگ میں سے کوئلے سے چلنے والے منصوبوں میں 2 ارب 82 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی، یہ 55 فیصد بنتا ہے، اس کے علاوہ باقی رقم تھرمل اور ہائیڈل پاور منصوبوں کے لیے آئی۔

زیادہ تر منصوبوں میں سرمایہ کاری چین نے پاک۔چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت کی، شنگھائی الیکٹرک پاور کمپنی لمیٹڈ تھر پاور پروجیکٹس کے لیے کام کرنے والی ایجنسی ہے۔

حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ تھر میں کوئلے کے 25 ٹریلین ڈالر کے ذخائر ہیں، ملک کو غیرملکی قرضوں سے چھٹکارا دلانے کے لیے یہ انتہائی پرکشش ہے۔

ملک پر تقریباً 128 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ ہے، اور اسے قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے بڑی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے، پاکستان کو رواں برس قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے 24 ارب 50 کروڑ ڈالر کی ضرورت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں