فیض آباد دھرنا کیس: حکومت، سیکیورٹی ادارے اپنے دائرہ کار میں کام کریں، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 07 فروری 2019
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے 22 نومبر کو فیض آباد دھرنے کا فیصلہ محفوظ کیا تھا —فائل فوٹو: اے ایف پی
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے 22 نومبر کو فیض آباد دھرنے کا فیصلہ محفوظ کیا تھا —فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے 2017 میں فیض آباد میں دیے گئے دھرنے کے خلاف ازخود نوٹس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، خفیہ ایجنسیوں اور پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 22 نومبر کو فیض آباد دھرنے کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے آج جاری کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ازخود نوٹس کا فیصلہ سنانا مشکل کام ہے، عدالت عظمیٰ کے بینچ کی جانب سے عدالت میں فیصلہ پڑھ کر نہیں سنایا گیا اور صحافیوں کو کہا گیا کہ اس کی کاپی سپریم کورٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ پر دستیاب ہوگی۔

مزید پڑھیں: فیض آباد دھرنا کیس:خادم حسین رضوی کے وارنٹ گرفتاری جاری

بعد ازاں فیض آباد دھرنا از خود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا، جو 43 صفحات پر مشتمل ہے۔

ہر شہری، سیاسی جماعت کو پرامن احتجاج کا حق ہے

فیصلے میں کہا گیا کہ کوئی شخص جو فتویٰ جاری کرے جس سے ' کسی دوسرے کو نقصان یا اس کے راستے میں مشکل ہو' تو پاکستان پینل کوڈ، انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 اور/ یا پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت ایسے شخص کے خلاف ضرور مجرمانہ مقدمہ چلایا جائے۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ قانون کی جانب سے عائد کی گئی 'معقول پابندیوں' میں رہتے ہوئے شہریوں کا یہ حق ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں بنائیں اور اس کے رکن بنیں۔

فیصلے کے مطابق ہر شہری اور سیاسی جماعت 'امن و عامہ کے مفاد' میں 'معقول' قانونی پابندیوں کے مطابق پر امن اجتماع اور احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔

اجتماع اور احتجاج کرنے کی حد اس وقت تک دائرے میں ہے جب تک وہ کسی دوسرے کے بنیادی حقوق، اس کی آزادانہ نقل و حرکت اور املاک کو نقصان نہ پہنچائے۔

یہ بھی پڑھیں: فیض آباد دھرنا کیس میں سیکیورٹی اداروں کی سرزنش

عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ 'مظاہرین جو سڑکوں کا استعمال اور عوامی املاک کو نقصان پہنچاتے یا تباہ کرتے ہوئے عوام کے حق میں رکاوٹ ڈالتے ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور انہیں ذمہ دار ٹھہرایا جائے'۔

سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ

فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کے مطابق اپنی ذمہ داری کو ضرور پورا کرے، ساتھ ہی عدالت نے یہ کہا کہ ای سی پی قانون کی خلاف ورزی کرنے والی سیاسی جماعتوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے۔

عدالت نے فیصلے میں مزید کہا کہ قانون کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کو ان کی ذرائع آمدن کا حساب دینا ہوگا۔

ریاست کو غیرجانبدار اور منصفانہ سلوک کرنا چاہیے

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کراچی میں 12 مئی 2007 کے وکلا کے احتجاج کا ذکر اور 'سڑکوں پر پرامن شہریوں کے قتل اور اقدام قتل کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی میں' ریاست کی ناکامی کا بھی ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ اس سے برا اثر پڑا اور دوسروں کو تقویت ملی کہ وہ اپنے ایجنڈے کے حصول کے لیے بدامنی پھیلائیں'۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ 'ریاست کو ہمیشہ غیرجانبدار اور منصفانہ سلوک کرنا چاہیے، قانون کا اطلاق سب پر ہوتا ہے ان پر بھی جو حکومت میں شامل ہیں، ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی کہا کہ جو حکومت میں ہیں ان کے ساتھ بھی اداروں کو آزادنہ طور پر پیش آنا چاہیے'۔

فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ ' نفرت، انتہاپسندی اور دہشت گردی پھیلانے والوں کی نگرانی کی جائے اور قانون کے مطابق ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے'۔

خفیہ ادارے اور آئی ایس پی آر کو اپنے دائرہ کار سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے

عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، ملٹری انٹیلی جنس اور انٹر سروسز پبلک ریلیشن کو 'اپنے متعلقہ مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے'۔

فیصلے کے مطابق 'وہ آزادی اظہار رائے کو محدود نہیں کرسکتے اور انہیں نشر و اشاعت کے ساتھ براڈکاسٹر/پبلشر اور اخبارات کی تقسیم میں مداخلت کا اختیار نہیں ہے'۔

مزید پڑھیں: فیض آباد دھرنا کیس: سپریم کورٹ کا عبوری حکم نامہ جاری

فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں کہا گیا کہ خفیہ ایجنسیز کو ملک کی علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ اور تشدد کے ذریعے عوام اور ریاست کی سلامتی کو کمزور کرنے کی کوشش کرنے والے عناصر کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنی چاہیے۔

ساتھ ہی عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ 'بہتر ہوگا کہ ان قوانین کا اطلاق کیا جائے جو خفیہ اداروں کے متعلقہ دائرہ کار کی وضاحت کرتے ہوں تاکہ شفافیت اور قانون کی حکمرانی کو اچھے طریقے سے یقینی بنایا جاسکے'۔

عدالت نے کہا کہ 'آئین مسلح فورسز کے افراد کو کسی طرح کی بھی سیاسی سرگرمی، جس میں سیاسی جماعت، گروہ یا فرد کی حمایت ہو اس سے منع کرتا ہے۔ حکومت پاکستان کو وزارت دفاع اور تینوں مسلح افواج کے متعلقہ سربراہان کے ذریعے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ حلف کی خلاف ورزی کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کریں'۔

عدالت کی جانب سے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی کہ وہ ایک معیاری طریقہ کار اور منصوبے تیار کریں کہ 'کس طرح ریلیوں، احتجاج اور دھرنوں سے نمٹا جائے، ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنائے کہ یہ پلانز/طریقہ کار اتنے لچک دار ہوں کہ انہیں مختلف حالات میں استعمال کیا جاسکے'۔

فیصلے میں یہ واضح کیا گیا گوکہ اس طرح کے منصوبے/ طریقہ کار عدالتی دائرہ اختیار میں نہیں ہیں، البتہ ہم امید کرتے ہیں کہ انسانی جانوں کے ضیاع اور نقصانات سے بچتے ہوئے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔

میڈیا براڈکاسٹ اینڈ ریگولیشن

فیصلے میں کہا گیا کہ 'پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اپنے پیمرا آرڈیننس کے تحت ان کیبل آپریٹز کے خلاف کارروائی کا آغاز کرے'، جنہوں نے لائسنس یافتہ براڈکاسٹرز کی نشریات کو روکا یا اس میں خلل پیدا کیا۔

تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ 'اگر یہ کسی دوسرے کی ایما پر ہوا تو پیمرا کو اس کی رپورٹ کرنی چاہیے تاکہ کیبل آپریٹرز کو متعلقہ انتظامیہ کی ہدایت کی جاسکے'۔

یہ بھی پڑھیں: فیض آباد دھرنا کیس: عدالت کا خادم حسین رضوی کو گرفتار کرنے کا حکم

اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے کہا کہ ایسے براڈکاسٹر جنہوں نے 'جرم کو بڑھاوا دینے یا اسے پھیلانے کا پیغام' نشر کیا تو یہ پیمرا آرڈیننس اور لائسنس کی شرائط کی خلاف ورزی ہے اور ریگولیٹر کو قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔

مفت پبلسٹی سے ٹی ایل پی کسی حد تک معروف سیاسی جماعت بن گئی

فیصلے میں یہ بھی کیا گیا کہ تحریک لبیک پاکستان بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہوئی اور انتخابات میں بھی حصہ لیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق تحریک لبیک نے قانون کی زبان میں غلطی درست کرنے کے باوجود دھرنا جاری رکھا، دھرنے سے جڑواں شہر مفلوج ہو گئے اور سپریم کورٹ سمیت تمام سرکاری، غیر سرکاری اداروں کا کام متاثر ہوا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ فیض آباد دھرنے کے دوران تحریک لبیک پاکستان کے رہنماؤں نے نفرت انگیز تقاریر کیں جبکہ میڈیا نے دھرنا قائدین کو غیر ضروری کوریج دی۔

مذکورہ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ دھمکیاں اور گالیاں بلا روک ٹوک جاری رہیں، دھرنا قائدین نے دھمکیوں اور گالیوں کے ساتھ نفرت پھیلائی جبکہ حکومت مخالف ہر فرد دھرنے کا حصہ بن گیا اور مفت کی پبلسٹی سے تحریک لبیک کسی حد تک معروف سیاسی جماعت بن گئی۔

فیصلے کے مطابق دھرنا مظاہرین نے سی سی ٹی وی کیمروں کی تاریخ بھی کاٹیں، جس سے ان کی تیاری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا لیکن ناکام رہے۔

مزید پڑھیں: فیض آباد دھرنا کیس: راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ پیش نہ کرنے پر عدالت برہم

فیصلے کے مطابق مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا گیا، جس سے 173 افراد زخمی ہوئے، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو آتش گیر اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت نے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کا تعاون حاصل کیا، تاہم فوج کی تعیناتی سے پہلے ہی 26 نومبر 2017 کی رات کو حکومت اور دھرنا قیادت کے درمیان معاملات طے پاگئے، ٹی ایل پی مظاہرین وردی میں ملبوس شخص سے رقم وصول کرکے منتشر ہوگئے۔

فیصلے میں شامل قائد اعظم کے فرمودات

عدالت عظمیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمودات کو بھی شامل کیا گیا۔

فیصلے میں قائد اعظم کا فرمان شامل کیا گیا کہ 'میں مسلمانوں کو خبردار کرتا ہوں کہ اپنے غصے پر قابو رکھیں، ردعمل ہمیشہ کسی عقلی دلیل کے طابع ہونا چاہیے، ردعمل سے ریاست کو خطرات میں نہیں ڈالنا چاہیے۔

اس کے ساتھ قائد اعظم کا یہ فرمان بھی فیصلے کا حصہ بنایا گیا کہ 'پاکستان میں قانون کی عملداری بہت ضروری ہے، لاقانونیت ملک کی بنیادیں ہلا دے گی۔

فیصلے میں شامل بانی پاکستان کے ارشاد کو نقل کیا گیا کہ' میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ پاکستانی آزاد ریاست کے اس تحفے کی قدر کرسکیں اور پاکستان میں قانون کی عملداری ہو'۔

واضح رہے کہ عدالت نے فیصلے کی نقل سیکریٹری دفاع، ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) آئی ایس آئی، ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی جی کو فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی۔

قبل ازیں اس فیصلے کے حوالے سے عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان، انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد، سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو فیصلے کے حوالے سے نوٹس جاری کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: فیض آباد دھرنے سے گرفتار مزید 59 ملزمان کے ضمانتیں منظور

خیال رہے کہ مقدمے میں ٹی ایل پی کی جانب سے دیے گئے دھرنے سمیت پارٹی کی رجسٹریشن، پرتشدد احتجاج، حکومتی اداروں کا کردار اور احتجاج کے دوران پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے سماعت ہوئی تھی۔

ان سماعتوں کے دوران اٹارنی جنرل، میڈیا ریگولیٹر اور دیگر اسٹیک ہولڈرز پر سخت تنقید کی گئی تھی۔

فیض آباد دھرنا

واضح رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت ٹی ایل پی نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔

حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوگئی تھی جبکہ آپریشن کے بعد مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑاتھا۔

27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں