گرفتاری کا خوف: مرزا کا عدالت میں ڈیرہ

اپ ڈیٹ 22 مئ 2015
ذوالفقار مرزا گرفتاری سے بچنے کے لیے عدالت سے باہر آنے سے گریز کرتے رہے—۔فوٹو/ پی پی آئی
ذوالفقار مرزا گرفتاری سے بچنے کے لیے عدالت سے باہر آنے سے گریز کرتے رہے—۔فوٹو/ پی پی آئی

کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ناراض رہنما اور سابق وزیرِ داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا نے صوبائی حکومت کی جانب سے اپنی گرفتاری کو ناکام بنا دیا اور معاملہ منگل کو 8 گھنٹے بعد اُس وقت ختم ہوا، جب پولیس کی بھاری نفری کو عدالت کے باہر سے ہٹانے کے احکامات جاری کیے گئے۔

ذوالفقار مرزا منگل کو صبح 11 بجے کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت پہنچے اور خود کو 8 گھنٹوں سے زائد کمرہ عدالت میں بند کرلیا، جبکہ اس موقع پر سندھ ہائی کورٹ کے مد مقابل انسداد دہشت گردی عدالت کے اندر اور اطراف میں سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے جبکہ راستوں کو کنٹینرز اور رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردیا گیا تھا۔

ذوالفقار مرزا نے ممکنہ گرفتاری کے پیش نظر سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ عدالت سے باہر نکلتے ہیں انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔

انہوں نے عدالت میں ڈیتھ ڈکلیریشن بھی جمع کرایا، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور اگر انہیں کچھ ہوا تو اس کی ذمہ دار پیپلزپارٹی کی قیادت اور پولیس افسران ہوں گے۔

اس دوران ان کی اہلیہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا بھی انسداد دہشت گردی عدالت پہنچیں، ان کا کہنا تھا کہ جھوٹی ایف آئی آر کاٹ کر ذوالفقار مرزا کو گرفتار کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں ایک ڈویژن بینچ اُس وقت برہم ہوگیا جب ذوالفقار مرزا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کہ انتظامیہ نے حکومت کے قانونی افسر کی یقین دہانی کے باوجود ان کے موکل کو گرفتار کرنے کے لیے انتظامات کرلیے ہیں۔

ذوالفقار مرزا کے وکیل نے مزید بتایا کہ دن کے آغاز پر جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کی سربراہی میں ایک ڈویژن بینچ کے سامنے ان کے موکل کے تمام مقدمات کراچی منتقل کرنے کامعاملہ اٹھایا گیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ انتظامیہ نے ذوالفقار مرزا کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ ساتھ سینیئر پولیس افسران بھی عدالت کے باہر موجود ہیں، جس پرعدالت نے ذوالفقار مرزا کو گرفتار نہ کرنے اور قانون کے مطابق عمل کرنے کا حکم دیا۔

جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے انسپکٹر جنرل آف پولیس اور ڈی آئی جی کراچی کو عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے اور انتظامیہ کو ذوالفقار مرزا کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کرنے پر شوکاز نوٹس بھی جاری کر دیئے۔

عدالت نے انسپکٹر جنرل آف پولیس اور ڈی آئی جی کراچی کو طلب کیا، تاہم رابطہ نہ ہونے پر ہوم سیکریٹری کو طلب کیا گیا، جنھیں انسداد دہشت گردی عدالت اور سندھ ہائی کورٹ کے اطراف سے پولیس کی بھاری نفری ہٹانے کی ہدایت دی گئیں۔

اور بالآخر شام 7 بجے کے قریب ذوالفقار مرزا کمرہ عدالت سے باہر آئے۔

عبوری ضمانت میں 30 مئی تک توسیع

انسداد دہشتگردی کی عدالت نے 13 مقدمات میں ذوالفقار مرزا اور ان کے 47 ساتھیوں کی عبوری ضمانت میں 30 مئی تک کے لیے توسیع کردی۔

ذوالفقار مرزا کی پیشی کے موقع پر دو ڈی آئی جی سمیت ایک ہزار سے زائد پولیس اہلکار عدالت کےباہر تعینات رہے، جبکہ ذوالفقار مرزا گرفتاری سے بچنے کے لیے عدالت سے باہر آنے سے گریز کرتے رہے۔

خیال رہے کہ سندھ کے سابق وزیر داخلہ اور ان کے درجنوں ساتھیوں پر 3 مئی کو بدین کے پولیس اسٹیشن پر حملہ کرکے پولیس اہلکاروں کو زدو کوب کرنے، ضلع بھر میں مارکیٹیں بند کروانے اور دکانداروں کو قتل کرنے کی کوشش کرنے کا الزام ہے۔

جس کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا اور ان کے 47 ساتھیوں کی 19 مئی تک عبوری ضمانت منظور کی تھی۔

مزید پڑھیں:ذوالفقار مرزا کی 19 مئی تک کی ضمانت منظور

ذوالفقار مرزا اور دیگر ملزمان اپنی لیگل ٹیم کے ہمراہ منگل کو انسداد دہشتگردی عدالت کے جج بشیر احمد کھوسو کے سامنے پیش ہوئے۔

عدالت نے پیپلز پارٹی کے باغی لیڈر ذوالفقارمرزا کی عبوری ضمانت میں 30 مئی تک توسیع کردی جبکہ متفرق درخواستوں کی سماعت 25 مئی کو ہوگی۔

ممکنہ گرفتاری کے پیش نظر ذوالفقار مرزا نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی جس پر عدالت نے پولیس کو انھیں گرفتار کرنے سے روک دیا ۔

استغاثہ کے مطابق ذوالفقار مرزا اور ان کے ساتھیوں پر قائم ہونے والے دو مقدمات دو تاجروں امتیاز علی اور حاجی تاج محمد کی درخواست پر قائم کیے گئے، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ملزمان نے زبردستی ان کے کاروبار بند کروانے کے لیے حراساں کیا اور مجموعی طور پر 40 لاکھ روپے کی رقم بھی دکان سے نکال کر لے گئے۔

ذوالفقار مرزا اور ان کے ساتھیوں پر قائم کیے جانے والے ایک اور مقدمے میں بدین کے ایڈیشنل ایس ایچ او والی محمد چاند نے ان پر الزام لگایا کہ ملزمان نے پی پی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور پر مقدمہ درج نہ کرنے پر پولیس اہلکار کو زدو کوب کیا اور کارسرکار میں مداخلت کی۔

واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے مذکورہ کیس حیدرآباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج کی جانب سے معذرت کے باعث کراچی کی اے ٹی سی عدالت میں سماعت کے لیے بھجوادیا تھا۔

جسٹس عبدالغفور میمن نے ذوالفقار مرزا کے کیس کی سماعت سے محض اس لیے معذرت کرلی تھی کیوںکہ مرزا کے والد جسٹس ظفر حسین مرزا اُس وقت ان کے سینیئر تھے، جب وہ وکالت کر رہے تھے۔

تبصرے (1) بند ہیں

ڈاکٹرشفیق May 20, 2015 03:06pm
ساری کے سارے معاملہ پیپلزپارٹی کی بدنامی پرختم ہوگا مرزا کی شورشرابے کے پیچھی ضرورکو‍ئ مظبوط ہاتھ ہے زرداری صاحب کی نجی زندگی سے واقف مرزاکی زبان بندکرنی کیلے اس کی گرفتاری کی کوشش ہورہی ہیں