فلسطین میں مزید 800 اسرائیلی مکانات

31 اکتوبر 2015
— فائل فوٹو/ اے ایف پی
— فائل فوٹو/ اے ایف پی
— فائل فوٹو/ اے ایف پی
— فائل فوٹو/ اے ایف پی

یروشلم: اسرائیل کے وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین کے مغربی کنارے کی 4 مختلف نو آبادیات بسیتوں میں 800 مکانات کی آباد کاری کی قانونی حیثیت کو بحال کردیا ہے۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ قانونی حیثیت دیئے جانے والے ان مکانات میں 377 مکانات مغربی کنارے میں قائم نو آبادیات بستی یاکر، 187 اتمار اور 94 شیلو میں ہیں جبکہ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں قائم یہودی بستی سانسانا کے 97 مکانات بھی اس میں شامل ہیں۔

واضح رہے کہ مذکورہ فیصلہ دو ہفتے قبل کیا گیا تھا تاہم اس کے حوالے سے اسرائیلی اخبارات میں گذشتہ روز خبریں شائع ہوئی ہیں۔

مزید پڑھیں: 17 روز میں 37 فلسطینی قتل

خیال رہے کہ یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی فورسز اور نہتے فلسطینوں کے درمیان صورت حال انتہائی کشیدہ ہے۔

رواں ماہ کے آغاز میں شروع ہونے والی اس کشیدگی میں اب تک اسرائیلی فورسز اور مسلح اسرائیلی آباد کاروں کے حملوں میں 63 فلسطینی شہری قتل کیے جاچکے ہیں جن میں بیشتر نو عمر ہیں، جبکہ اس کشیدگی میں 9 اسرائیلیوں کی ہلاکت کا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری کو عالمی برادری غیر قانونی قرار دے چکی ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیلی حکومت نے مذکورہ فیصلہ سنا دیا ہے۔

ادھر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو نو آبادیات میں اضافے پر عالمی برادری کی تنقید کا سامنا بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انتہا پسند یہودیوں نے 18 ماہ کا فلسطینی بچہ زندہ جلادیا

اس سے قبل اسرائیل کی جانب سے رواں سال جولائی میں مغربی کنارے کے وسطی حصے میں مزید 300 مکانات کی آباد کاری کی اجازت دی گئی تھی۔

یاد رہے کہ اسرائیل نے 1967 میں فلسطین کے مغربی کنارے کے علاقے پر عرب ممالک سے 6 روزہ جنگ کے اختتام پر قبضہ کیا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

AVARAH Oct 31, 2015 12:18pm
I was in Hungary and during discussion with a hungarian professor, he told me how hongary was divided among neigbours of hungary after defeat in world war. He emaphasised that Defeat is very bad thing in history of nations. Palestinians are a defeated nation. They sold their lands to jews for little gains. Now they are facing the consequencies. It will take a very long time to solve this problem. I amy not be able to see its solutions in my life time. We will read news like this news and symphatesise with them for a fault that was done by their forefathers and sleeping kings of states around formerly Palestine and presently Israel