لاہور ہائی کورٹ نے زینب قتل کیس میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) کے فیصلے کے خلاف مجرم عمران علی کی جانب سے دائر اپیل پر فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے۔

عدالتِ عالیہ میں جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مجرم عمران علی کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں مجرم کی جانب سے ایڈووکیٹ اسد جمال عدالت میں پیش ہوئے جہاں انہوں نے اپنا وکالت نامہ جمع کروانے کے لیے مزید وقت کے لیے استدعا کردی۔

عدالت نے مجرم کے وکیل کی درخواست پر ریمارکس دیئے کہ اس کیس کے لیے زیادہ وقت نہیں دیا جائے گا، لہٰذا عدالت کو بتایا جائے کہ اس کیس کی تیاری کے لیے کتنے گھنٹے درکار ہیں۔

مجرم عمران کے وکیل کا کہنا تھا کہ انہیں اس کیس کا ریکارڈ موصول نہیں ہوا۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس صداقت علی کان نے کیس میں تمام فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 20 مارچ تک ملتوی کردی۔

مجرم کو سرِ عام پھانسی دی جائے، والد زینب

قصور میں قتل ہونے والی 6 سالہ زینب کے والد نے لاہور ہائی کورٹ کے باہر میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ملزم کی اپیل کو خارج کیا جائے اور اسے سرِ عام پھانسی دی جائے۔

زینب کے والد کا کہنا تھا کہ مجرم یہی ہے لیکن اس کے سہولت کاروں کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی، لہٰذا ان کے خلاف کارروائی کرکے انہیں بھی منظر عام پر لایا جائے۔

ادھر زینب کے اہل خانہ کے وکیل ایڈووکیٹ اشتیاق چوہدری کا کہنا تھا کہ مجرم کی اپیل پر 7 روز کے اندر اندر فیصلہ ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مجرم عمران کے موبائل اور اس کے میموری کارڈز کے ڈیٹا پر تحقیقات نہیں کی گئی۔

زینب قتل کیس — کب کیا ہوا؟

یاد رہے کہ قصور میں 4 جنوری کو لاپتہ ہونے والی 6 سالہ زینب کی لاش 9 جنوری کو ایک کچراکنڈی سے ملی تھی جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واقعے کا نوٹس لیا تھا جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو ملزم کی فوری گرفتاری کی ہدایات جاری کی تھیں۔

پولیس نے 13 جنوری کو ڈی این اے کے ذریعے ملزم کی نشاندہی کی تھی اور ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد 23 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے لاہور میں زینب کے والد کی موجودگی میں پریس کانفرنس کی تھی اور ملزم کی گرفتاری اعلان کیا تھا۔

بعد ازاں 9 فروری کو عدالت نے گرفتار ملزم عمران علی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کردیا تھا۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے ملزم عمران علی کو چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کی استدعا کی جو منظور کرلی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل: ملزم عمران مزید 7 بچیوں کے قتل کیسز میں نامزد

جس پر عدالت نے زینب قتل کیس کے ملزم عمران کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

کوٹ لکھپت کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے 12 فروری کو ملزم عمران پر فردِ جرم عائد کردی تھی۔

17 فروری کو اے ٹی سی نے زینب کو ریپ کے بعد قتل کے جرم میں عمران علی کو 4 مرتبہ سزائے موت، عمر قید اور 7 سال قید کی سزا کے ساتھ ساتھ 41 لاکھ روپے جرمانے بھی عائد کیا تھا۔

واضح رہے کہ 20 فروری کو عمران علی نے اے ٹی سی کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور اپنی درخواست میں مجرم نے موقف اختیار کیا تھا کہ زینب قتل کیس کا فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا جبکہ اے ٹی سی نے فیصلہ سناتے ہوئے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے، تاہم عدالتِ عالیہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے۔

یاد رہے کہ 5 مارچ کو لاہور ہائی کورٹ نے زینب قتل کیس میں سزائے موت پانے والے مجرم عمران علی کی سزا کے خلاف اپیل پر عدالتی ریکارڈ اور جیل سپرنٹنڈنٹ سے رپورٹ طلب کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں