کراچی: انسدادِ دہشت گردی عدالت نے جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے قتل کے الزام میں گرفتار سابق سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤانوار کو جوڈیشل ریمانڈ پر 2 مئی تک جیل بھیج دیا گیا۔

سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان کو سخت سیکیورٹی میں کراچی کی انسدادِ دہشت گردی عدالت پہنچایا گیا، اس دوران پولیس کی بھاری نفری عدالت کے اندر اور اطراف میں تعینات رہی۔

سماعت کے دوران نقیب اللہ محسود قتل کیس کے تفتیشی افسر نے عدالت کو اس کیس میں ہونے والی اب تک کی تفتیش سے آگاہ کیا۔

انہوں نے عدالت میں استدعا کی کہ اس کیس میں جے آئی ٹی تشکیل دی جاچکی ہے اس لیے چالان جمع کروانے کے لیے مزید مہلت دی جائے۔

نقیب اللہ قتل کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے ایک رکن نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس میں اب تک تفتیش میں کافی پیش رفت ہوچکی ہے اور نقیب اللہ کے لواحقین کے بیانات بھی قلمبند کراچکے ہیں۔

انہوں نے استدعا کی کہ اب بھی اس معاملے میں کچھ تفتیش باقی ہے، لہٰذا تفتیش مکمل کرنے کے لیے کچھ وقت دیا جائے۔

عدالت نے جے آئی ٹی کو 2 مئی تک عدالت میں مکمل چلان جمع کروانے اور تفتیشی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا، جبکہ ڈی ایس پی قمر سمیت دیگر 11 ملزمان کے عدالتی ریمانڈ میں توسیع کردی۔

نقیب اللہ محسود کا قتل

خیال رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو گزشتہ ہفتے ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

مزید پڑھیں: راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے انٹیلی جنس اداروں سے مدد طلب

نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے بتایا تھا کہ رواں ماہ کے آغاز میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ 13 جنوری کو پتہ چلا تھا کہ اسے مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ مقتول اس سے قبل بلوچستان میں حب چوکی پر ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتا تھا اور اس کے کسی عسکریت پسند گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

از خود نوٹس کیس کی اب تک کی سماعت

واضح رہے کہ 19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے قتل کا از خود نوٹس لے لیا۔

23 جنوری کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس کے لیے مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس سے 7 روز میں واقعے سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

26 جنوری کو نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کے قتل کی تفتیش کرنے والی ٹیم نے 15 صفحات پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جس میں مقابلے کو یک طرفہ قرار دیا گیا تھا۔

27 جنوری کو سپریم کورٹ نے معطل سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کی گرفتاری کے لئے انسپکٹر جنرل (آئی جی ) سندھ اللہ ڈنو خواجہ کو 3 دن کی مہلت دی تھی۔

یکم فروری کو عدالت نے راؤ انوار کا پیغام میڈیا پر چلانے پر پابندی لگاتے ہوئے ملزم کی تلاش کے لیے ڈی جی ایف آئی اے کو انٹرپول کے ذریعے دنیا بھر کے ایئرپورٹس سے رابطہ کرنے کا حکم دے دیا۔

13 فروری کو سپریم کورٹ نے راؤ انور کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی تھی جبکہ ان کی گرفتاری عمل میں نہ لانے کی ہدایت دیتے ہوئے انہیں 16 فروری کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

16 فروری کو راؤ انوار حفاظتی ضمانت کے باوجود عدالت عظمیٰ میں پیش نہیں ہوئے تھے جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے راؤ انوار کو عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر توہین عدالت کا شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے خفیہ ایجنسیوں کو ان کی تلاش کا حکم دیا تھا۔

5 مارچ کو عدالت عظمیٰ نے ملیر راؤ انوار کو تلاش کرنے سے متعلق خفیہ ایجنسیوں کو ایک ہفتے میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

14 مارچ کو راؤ انوار نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر اپنے بینک اکاؤنٹ کھولنے کی استدعا کی تھی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے 16 مارچ کو ہونے والی سماعت کے دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو نقیب اللہ محسود قتل کیس میں مفرور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے 2 روز کی مہلت دی تھی۔

واضح رہے کہ 21 مارچ کو نقیب اللہ محسود قتل سے متعلق از خود نوٹس کیس میں سابق ملیر راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور سماعت کے بعد انہیں عدالت کے حکم پر گرفتار کرلیا گیا۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیشی

بعدِ ازاں پولیس راؤ انوار کو نجی ایئرلائن کے ذریعے اسلام آباد سے کراچی لے آئی، اور 22 مارچ کو کراچی کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کیس میں 30 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

29 مارچ کو کراچی کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو 21 اپریل تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں