عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں چین کے شہر ووہان کی ہول سیل مارکیٹ کا حصہ ہے لیکن اس پر مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔

خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے رکن ڈاکٹر پیٹر بین ایمباریک کا کہنا تھا کہ 'یہ واضح ہے کہ اس میں مارکیٹ کا کردار ہے لیکن وہ کیا تھا اس کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مارکیٹ کے اطراف میں چند کیسز کا سامنے آنا بنیادی محرک تھا یا محض اتفاق تھا یہ واضح نہیں ہے'۔

مزید پڑھیں:ووہان کی لیبارٹری میں وائرس کی تیاری کے کافی شواہد ہیں، پومپیو

خیال رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں چینی حکام نے کورونا وائرس سامنے آنے کے بعد ووہان کی مرکزی مارکیٹ کو بند کردیا تھا جو وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کیے گئے اقدامات کا حصہ تھا۔

جنیوا میں میڈیا کو بریفنگ کے دوران ڈاکٹر پیٹر بین ایمباریک کا کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ مارکیٹ میں وائرس زندہ جانوروں سے آیا یا متاثرہ دکان دار بھی وائرس کو لانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو کہہ چکے ہیں کہ کورونا وائرس ووہان کی لیبارٹری سے آیا ہے جس کے واضح ثبوت موجود ہیں۔

انہوں نے ووہان لیبارٹری سے وائرس کے پھیلنے کے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے جبکہ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس قدرتی طور پر پیدا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:’امریکا نے وائرس ووہان کی لیبارٹری میں تیار ہونے کے دعوے کا کوئی ثبوت نہیں دیا‘

دوسری طرف جرمنی کی انٹیلی جنس رپورٹ میں ان کے دعوؤں پر شک کا اظہار کیا گیا تھا۔

تاہم ڈاکٹر پیٹر بین ایمباریک نے ان الزامات کو نہیں دہرایا لیکن انہوں نے کہا کہ محقیقین کو ایم ای آر ایس (مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سینڈروم) کا سراغ لگانے میں ایک سال لگ گیا تھا کہ اونٹ اس کا ذریعہ تھی۔

ایم ای آر ایس سے متعلق تحقیق پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ کورونا وائرس 2012 میں سعودی عرب میں سامنے آیا تھا اور مشرق وسطیٰ میں پھیل گیا اور یہ عرصہ زیادہ لمبا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'کیا ضروری ہے اور کیا بہتر ہوگا اس کے لیے جو وائرس اس وقت موجود ہے، یہ انسانوں تک پہنچنے سے پہلے کہاں تھا اس کا پتہ ہونا چاہیے کیونکہ اس طرح ہم صحیح طور پر سمجھ جائیں گے کہ وائرس انسانوں میں کیسے داخل ہوا'۔

ڈاکٹر پیٹر بین ایمباریک نے کہا کہ 'تفتیش کے لیے چین کے پاس تمام درکار مہارت موجود ہے اور ان کے پاس بہت سارے کوالیفائیڈ محقیقین موجود ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں کئی مارکیٹوں میں جہاں زندہ جانور فروخت ہوتے ہیں انہیں بہتر اور قانونی پیرائے میں کرنا چاہیے اور بعض چیزوں کو بند کردینا چاہیے لیکن بڑی حد تک اس کو درست اور بہترانداز میں منظم کیا جاسکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹر نے کہا کہ یہ ویسٹ منیجمنٹ کے حوالے سے سوال ہے کہ شہریوں اور اشیا کی نقل و حرکت الگ ہو اور زندہ جانوروں اور جانوروں کے گوشت یا تازہ چیزوں کو الگ رکھنا چاہیے۔

مزید پڑھیں:کورونا لیبارٹری میں تیار ہوا؟ امریکی خفیہ ایجنسیوں نے تحقیق شروع کردی

واضح رہے کہ کورونا وائرس کے شروع ہونے سے اب تک اس سے متعلق سازشی اور جھوٹی تھیوریز سامنے آتی رہی ہیں جب کہ امریکا اور چین کی حکومتیں بھی ایک دوسرے پر الزامات لگاتی رہی ہیں۔

امریکا نے کورونا وائرس کو چینی وبا قرار دیا، وہیں چین نے بھی امریکا پر الزام لگایا کہ دراصل امریکی فوج ہی ابتدائی طور پر کورونا کو ان کے شہر ووہان لے آئی تھی مگر ایسے الزامات کو ثابت نہیں کیا جا سکا اور یہ سب صرف بیانات اور میڈیا کی خبروں کی زینت تک محدود رہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے 3 مئی کو دعویٰ کیا کہ ان کے پاس اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ کورونا وائرس کو چین کے شہر ووہان کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔

اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ شواہد دیکھ چکے ہیں جن کے مطابق کورونا وائرس چین کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔

دوسری جانب چینی شہر ووہان کے انسٹی ٹیوٹ آف ورولاجی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں کوئی صداقت نہیں کہ کورونا وائرس کو ان کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:امریکی فوج کورونا وائرس کو ’ووہان‘ لے کر آئی، چین کا دعویٰ

عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر برائے ہنگامی صورتحال مائیکل ریان نے امریکی دعوؤں کو قیاس آرائیوں سے تعیبر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وائرس کی ابتدا کے حوالے سے ہمیں امریکا کی جانب سے کوئی ڈیٹا یا مخصوص شواہد موصول نہیں ہوئے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے نقطہ نظر کے مطابق یہ قیاس آرائی ہی ہے۔

مائیکل ریان نے کہا تھا کہ ’کسی بھی ثبوت پر بات کرنے والے ادارے کی طرح ہم بھی وائرس کی ابتدا کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں‘۔

ڈبلیو ایچ او عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ڈیٹا اور شواہد موجود ہیں تو یہ فیصلہ امریکی حکومت کو کرنا ہے کہ انہیں فراہم کرنا ہے یا نہیں اور کب فراہم کرنا ہے لیکن عالمی ادارہ صحت کے لیے اس حوالے سے معلومات کی عدم موجودگی میں کچھ کرنا مشکل ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں