کراچی کی مقامی عدالت نے کم سن لڑکی آرزو کے مبینہ اغوا اور جبری طور پر مسلمان بنانے میں ملوث ایک ملزم کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔

پولیس نے دعویٰ کیا کہ 13 سالہ لڑکی آرزو کے شوہر سید علی اظہر کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا جبکہ ان کے دو بھائیوں اور ایک دوست کو مبینہ طور پر 13 اکتوبر کو لڑکی کے اغوا میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ 13 سالہ آرزو کے مبینہ اغوا اور جبری مذہب تبدیلی اور مسلم شخص سے کم عمری میں شادی کے خلاف انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا۔

تفتیشی افسر نے 2 نومبر کو مبینہ مرکزی ملزم کو جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی محمد علی دل کے سامنے پیش کرکے تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے بعد 13 سالہ آرزو کو بازیاب کرالیا گیا، مرتضیٰ وہاب

تفتیشی افسر شارق احمد صدیقی نے کہا تھا کہ زیر حراست ملزم کے ڈی این اے ٹیسٹ اور ان کے مبینہ مفرور ساتھیوں کی گرفتاری کی ضرورت ہے، اسی لیے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی تھی۔

وکیل صفائی چوہدری محمد رمضان نے مؤقف اپنایا تھا کہ ان کے مؤکل کی گرفتاری سندھ ہائی کورٹ کے 27 اکتوبر کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) تعزیرات پاکستان کے سیکشن 364 اے کے تحت درج کی گئی ہے، اس لیے مقدمے میں سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2012 کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔

وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ متاثرہ لڑکی آرزو نے سندھ ہائی کورٹ کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے ملزم سید علی اظہر سے اپنی مرضی سے شادی کی ہے، اس لیے اگر کوئی سمجھتا ہے کہ سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کا اس معاملے پر اطلاق ہوتا ہے تو پھر اس کو متعلقہ دفعات کے تحت الگ سے ایف آئی آر درج کرانے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسر کی جانب سے تفتیش کے لیے ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست قابل عمل نہیں اور عدالت سے درخواست کی تھی کہ ان کے مؤکل کو کریمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کے سیکشن 63 کے تحت رہا کریں یا پھر جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیں۔

مزید پڑھیں: کم عمری کی شادی اور جبری مذہب تبدیلی کے خلاف بل پیش

درخواست گزار کے وکیل ریاض عباسی، لیوک وکٹر اور جبران ناصر نے دلیل دی کہ سندھ ہائی کورٹ کے 27 اکتوبر کے حکم کی وضاحت ہائی کورٹ نے 2 نومبر کو کردی ہے اور اسی حکم کےتحت متاثرہ لڑکی آرزو کو دارالامان بھیج گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت یا تفتیشی ایجنسی پر ایف آئی آر میں سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کی دفعات شامل کرنے کے لیے کوئی قانونی قدغن نہیں ہے کیونکہ آرزو کی عمر 13 برس ہے۔

وکلا نے مؤقف اپنایا کہ ملزم کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔

سرکاری وکیل عبدالرحمٰن تھہیم نے بھی تفتیشی افسر کے مؤقف اور درخواست گزار کے وکلا کے دلائل کی تائید کی اور کہا کہ متاثرہ لڑکی 13 سالہ ہے، اس لیے سندھ چائلڈ میرج ایکٹ ریسٹرینٹ ایکٹ کا اطلاق متعلقہ ہیں۔

انہوں نےکہا کہ تفتیشی افسر کا تعلق انتظامیہ سے نہیں ہے اور وہ فریئر تھانے کے زیر کام کر رہے ہیں جہاں ابتدائی طور پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

سرکاری وکیل نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کو تفتیش اور دیگر قانونی معاملات کی تکمیل کے لیے پولیس ریمانڈ میں دیا جائے۔

سماعت کے دوران تفتیشی افسر اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کے انسپکٹر شارق احمد صدیقی نے سندھ ہائی کورٹ کے 2 نومبر کے حکم کی نقول بھی فراہم کی اور کہا کہ اس کی مصدقہ کاپیاں اگلی سماعت میں پیش کردوں گا۔

عدالت نے دستیاب شواہد اور تمام فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد کہا کہ معاملے کی ایف آئی آر تعزیرات پاکستان کے سیکشن 364 اے کے تحت درج کی گئی، بعد ازاں تفتیشی ایجنسی نے ملزم کی 13 سالہ لڑکی آرزو سے شادی کی بنیاد پر سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کی دفعات شامل کیں۔

یہ بھی پڑھیں: اقلیتی کمیشن نے جبری مذہبی تبدیلی کے خلاف قانون کا مسودہ تیار کرلیا

جج نے کہا کہ ملزم کے وکیل کی جانب سے قانونی نکات اٹھائے گئے اور سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کے عدم اطلاق کی دلیل دی ہے، اس لیے کریمنل پروسیجر کوڈ کی سیکشن 180 اور 179 کو شامل کیا جاسکتا ہے۔

جج نے کہا کہ معاملے کی دوبارہ تفتیش کے لیے کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے اور پولیس حکام کو سی آر پی سی کے سیکشن 173 کے تحت حتمی رپورٹ میں اضافی چارج شیٹ شامل کرنے اجازت ہے۔

اپنے حکم میں جوڈیشل مجسٹریٹ نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے 2 نومبر کو اپنے گزشتہ 27 اکتوبر کے حکم کی وضاحت کی ہے اور اسی تازہ حکم کی بنیاد پر لڑکی کو دارالامان بھیج دیا گیا ہے۔

جج نے کہا کہ اسی بنیاد پر عدالت ملزم کو مزید تفتیش کے لیے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرنے اور تفتیشی افسر کو 6 نومبر کو پیش کرنے کا حکم دیتی ہے۔

تفتیشی افسر کو ملزم کا کووڈ-19 ٹیسٹ کر کے اگلی سماعت پر رپورٹ پیش کرنے کا بھی حکم دیا گیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ 13 سالہ آرزو کے مبینہ اغوا اور جبری مذہب تبدیلی اور مسلم شخص سے کم عمری میں شادی کے خلاف انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا۔

واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ آرزو کے والد راجا کی مدعیت میں درج کی گئی تھی، جس میں انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ 13 اکتوبر کو وہ اور ان کی اہلیہ کام پر گئے تھے جبکہ ان کا بیٹا شہباز اسکول گیا تھا۔

شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ آرزو سمیت ان کی 3 بیٹیاں ریلوے کالونی میں ان کے گھر میں موجود تھیں کہ جب انہیں ایک رشتے دار کی کال موصول ہوئی کہ آرزو گھر سے غائب ہے۔

مزید پڑھیں: کم عمری کی شادی اور جبری مذہب تبدیلی کے خلاف بل پیش

راجا کا کہنا تھا کہ وہ گھر پہنچے اور انہوں نے اپنے پڑوسیوں سے رابطہ کیا لیکن بیٹی کا کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔

بعد ازاں انہوں نے فریئر تھانے میں نامعلوم افراد کے خلاف اپنی بیٹی کے اغوا کا مقدمہ درج کروایا۔

قبل ازیں آرزو کے اہل خانہ نے ڈان کو بتایا تھا کہ ان کی بیٹی کا مبینہ شوہر اظہر ان کے گھر کے سامنے اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتا تھا اور اس کی عمر 45 سال تھی۔

آرزو کی والدہ کا کہنا تھا کہ ’جس بدمعاش نے اسے (بیٹی) کو اغوا کیا اس نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ یہ 18 سال کی ہے جعلی کاغذات تیار کیے‘۔

دوسری جانب پولیس نے لڑکی کے مبینہ شوہر سید علی اظہر کے خلاف مقدمہ درج کرکے اس کے دو بھائیوں سید شارق علی، سید محسن علی، ایک دوست دانش کو کم عمر لڑکی کے مبینہ طور پر اغوا، زبردستی مذہب تبدیلی اور مسلمان شخص سے شادی کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔

اس سے قبل ہفتے کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے آرزو کے اہل خانہ کی جانب سے اسے دارالامان بھیجنے کے لیے دائر درخواست کو مسترد کردیا تھا۔

آرزو کے اہل خانہ کی جانب سے کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 100، بچوں کی شادی روکنے کے قواعد کے رول 5 کے ساتھ بچوں کی شادی روکنے کے قانون 2013 کے رولز 8، 9 اور 10 کے تحت درخواست دائر کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں