راولپنڈی: پولیس کی 'غفلت' سے گینگ ریپ کا گروہ قانونی کارروائی سے بچ نکلا

اپ ڈیٹ 03 دسمبر 2020
پولیس ذرائع نے بتایا کہ صادق آباد پولیس نے سب انسپکٹر لال حسین کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا تھا—فائل فوٹو: شٹراسٹاک
پولیس ذرائع نے بتایا کہ صادق آباد پولیس نے سب انسپکٹر لال حسین کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا تھا—فائل فوٹو: شٹراسٹاک

راولپنڈی میں لڑکیوں کو شادی کا لالچ دے کر ان سے دوستی اور پھر ان کے ساتھ گینگ ریپ کرنے والے گروہ سے متعلق معلومات سامنے آئی ہیں لیکن مبینہ طور پر پولیس کی پیشہ ورانہ غفلت کے باعث گروہ کے تمام اراکین گرفتار ہونے سے بچ گئے۔

اس ضمن میں فراہم کردہ معلومات کے مطابق صادق آباد پولیس نے جنسی اسکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث ایک ملزم عمر شہزاد کو گرفتار کیا تھا لیکن تفتیش کرنے کے بجائے اسے جوڈیشل ریمانڈ پرجیل بھیج دیا جبکہ گروہ کے دوسرے رکن ملزم عاقب نے عدالت سے عبوری ضمانت حاصل کرلی۔

مزید پڑھیں: قصور زیادتی اسکینڈل: دو ملزمان کو عمر قید کی سزا

پولیس ذرائع نے بتایا کہ صادق آباد پولیس نے سب انسپکٹر لال حسین کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل تھانہ صادق آباد پولیس کے اے ایس آئی شہزاد بٹ نے دونوں ملزمان کو رواں سال نومبر کے تیسرے ہفتے میں گرفتار کیا تھا تاہم ملزمان کے ساتھ مبینہ 'ساز باز' کے بعد دونوں گرفتار ملزمان کو چھوڑ دیا گیا۔

پولیس ذرائع نے بتایا کہ دوران تفتیش ملزم عاقب نے اے ایس آئی کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ وہ اب تک 40 سے زائد لڑکیوں کا گینگ ریپ کر کے ان کی ویڈیوز بنا چکے ہیں۔

اس ضمن میں اے ایس آئی شہزاد بٹ سے رابطے کرنے پر انہوں نے بتایا کہ 'مجھے ایک خاتون نے درخواست دی تھی جس کے بعد ان دونوں ملزمان کو گرفتار کیا گیا لیکن مدعیہ کے راضی نامے کے بعد ان ملزمان کو چھوڑ دیا گیا'۔

40 سے زائد لڑکیوں کی ویڈیو بنانے سے متعلق ملزم کے اعتراف پر اے ایس آئی شہزاد بٹ نے جواب دیا کہ 3 سے 4 تصاویر تھیں جنہیں ڈیلیٹ کردیا گیا تھا اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: گینگ ریپ کا شکار خاتون کے حوالے سے بیان پر سی سی پی او لاہور کو تنقید کا سامنا

اے ایس آئی شہزاد بٹ راضی نامے کے باوجود سب انسپکٹر لال حسین کی مدعیت میں مقدمہ درج کرنے سے متعلق تسلی بخش جواب نہیں دے سکے اور انہوں نے کہا کہ اس بارے میں کچھ نہیں معلوم۔

سب انسپکٹر لال حسین کی جانب سے تھانہ صادق آباد ہی میں درج مقدمے کے متن میں کہا گیا کہ دو لڑکوں اور ایک لڑکی کی برہنہ تصویریں دیکھنے کے بعد لڑکوں کے خلاف برہنہ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کر کے فحاشی پھیلانے پر 2128 بجرم 292 بی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

بعدازاں پولیس نے 28 نومبر کو ملزم عمر شہزاد کو گرفتار کیا اور اسی دن بغیر تفتیش کے اسے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جبکہ مقدمے میں نامزد دوسرے ملزم محمد عاقب نے عبوری ضمانت حاصل کرلی۔

اس ضمن میں سب انسپکٹر لال حسین نے ملزمان سے متعلق تصدیق کی لیکن تفتیش کیے بغیر ہی جیل بھیج دینے سے متعلق سوال پر انہوں نے فون بند کردیا۔

اس حوالے سے ایس پی راول ڈویژن رائے مظہر نے بتایا کہ ہمارے پاس کوئی مدعی ہی نہیں ایک برائی ہو رہی تھی جس پر مقدمہ درج کیا لیکن عدالت نے ہمیں کہا کہ یہ آپ کا کیس ہی نہیں بنتا بلکہ ایف آئی اے کا کیس ہے۔

مزید پڑھیں: موٹروے پر مدد کی متلاشی خاتون کا 'ڈاکوؤں' نے 'گینگ ریپ' کردیا

جب ایس پی سے پوچھا گیا کہ اے ایس آئی شہزاد بٹ نے ملزمان کو گرفتار کیا تھا اور انہوں نے مدعیہ کے ساتھ راضی نامہ کروا دیا جس پر ایس پی نے جواب دیا کہ آپ مدعیہ کو میرے پاس لے آئیں میں اے ایس آئی شہزاد بٹ کے خلاف مقدمہ درج کروں گا۔

اس ضمن میں پولیس ذرائع نے بتایا کہ پولیس کی ناقص تفتیش اور عدم دلچسپی کے باعث درخواست گزار مدعیہ پر پولیس نے دباؤ ڈال کر راضی نامہ کروا دیا اور پھر اپنی ہی مدعیت میں سوشل میڈیا پر تصویریں شائع ہونے پر ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا جس کی وجہ سے جنسی اسکینڈل کے حوالے سے کوئی بڑی پیش رفت نہ ہو سکی ہے۔

اس ضمن میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ذرائع نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر جنسی اسکینڈل سے متعلق پیکا ایکٹ کے تحت ایف آئی اے سائبر کرائم سیل سورس رپورٹ بنا کر اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کر سکتی ہے۔

راولپنڈی پولیس کے ایک سینئر افسر کسی بھی تھانہ کی پولیس غیر اخلاقی ویڈیوز دیکھ کر اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کر سکتی ہے لیکن کام کا بوجھ اور وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے کوئی بھی پولیس افسر یہ کام نہیں کرتا۔

انہوں نے کہا کہ صادق آباد پولیس نے جلد بازی کی اور بہت بڑا جنسی اسکینڈل بےنقاب نہیں ہوسکا لیکن صرف ایک ملزم کو گرفتار کر کے بغیر تفتیش کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دینا سمجھ سے باہر ہے تاہم پولیس اب بھی اگر چاہے تو کیس کو ری اوپن کر کے صحیح معنوں میں تفتیش کرسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں