کلبھوشن یادیو کیس: بھارت کو وکیل مقرر کرنے کا ایک اور موقع

اپ ڈیٹ 03 مارچ 2022
پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے  کلبھوشن یادیو نے 3 مارچ 2016 کو غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا— فائل فوٹو: ڈان نیوز
پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کلبھوشن یادیو نے 3 مارچ 2016 کو غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا— فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کلبھوشن یادیو کیس میں بھارت کو وکیل مقرر کرنے کا ایک اور موقع فراہم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ کلبھوشن کو سزا قانون کے مطابق نہیں ملی تو اسے بھی کالعدم قرار دیا جائے گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل لارجر بینچ نے کلبھوشن یادیو کو وکیل کی فراہمی کے لیے وزارت قانون کی درخواست پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے کلبھوشن یادیو کیس پر بھارت کا بے بنیاد بیان مسترد کردیا

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بتایا کہ دسمبر میں اس معاملے پر ایکٹ منظور ہوگیا ہے، بھارت کلبھوشن یادیو کو وکیل فراہم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا اور چاہتا ہے کہ یہ کارروائی رک جائے اور وہ عالمی عدالت انصاف جا سکے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شفاف ٹرائل کے جو اصول ہیں یہ عدالت ان کو یقینی بنائے گی، اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ کلبھوشن کو سزا قانون کے مطابق نہیں ملی تو اسے کالعدم قرار دے گی۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ پاکستان نے بھارت کو کلبھوشن تک قونصلر رسائی ایک سے زیادہ بار دی، اگر بھارت دلچسپی رکھتا تو اس عدالت سے رجوع کر چکا ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس عدالت کا فیصلہ کلبھوشن یادیو کو بھی فراہم کیا، اگر بھارت دلچسپی نہیں رکھتا تو میں اس طرح کارروائی کو چلانے کے حق میں نہیں، یہ عدالت کلبھوشن یادیو کے لیے وکیل مقرر کرے اور پھر کیس آگے بڑھایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ‏بھارت کلبھوشن کی سزا کے خلاف اپیل کے لیے منظور خصوصی ایکٹ سے بھی راضی نہیں اور بھارت کلبھوشن کو وکیل نہیں دینا چاہتا۔

یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن کیلئے قانون سازی کے بجائے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی تجویز

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا بھارت کو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے خلاف پاکستان کی عدالتوں پر اعتماد نہیں؟، کلبھوشن بھارتی شہری ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انسان بھی ہے اور اس عدالت کی ذمہ داری ہے کہ ایک انسان کو شفاف ٹرائل کا موقع فراہم کرے۔

انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے بھارت کو سمجھنے میں کوئی غلطی ہوئی ہو لہٰذا ہم انہیں ایک اور موقع دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کی درخواست پر کارروائی آگے بڑھائی جاتی ہے تو انصاف صرف ہوتا نہیں، ہوتا دکھائی بھی دینا چاہیے، بھارت نے بین الااقوامی عدالت انصاف کا فیصلہ شاید پڑھا نہیں یا غلط تشریح کر رہے ہیں، عدالت نے استفسار کیا کیس کھلی عدالت میں چل رہا ہے تو بھارت کو کیوں اعتراض ہے؟۔

اس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ کلبھوشن یادیو نے انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ حاضر سروس نیوی افسر ہے، بھارت نے کہا تھا کہ یہ مبارک پٹیل ہے کلبھوشن یادیو نہیں لہٰذا بھارت کلبھوشن کو ایک اثاثے کے طور پر دیکھتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر ایک کو کلبھوشن یادیو کو بطور انسان ٹریٹ کرنے دیں اور ہم عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے ہیں۔

مزید پڑھیں: کلبھوشن کیس میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ہر صورت عمل ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ

عدالت نے بھارت کو ایک اور موقع فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 13 اپریل تک ملتوی کردی۔

کلبھوشن سزا پر نظر ثانی کا معاملہ

یاد رہے کہ ’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ انہیں ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی سفارت کار کلبھوشن کی کوئی بات سنے بغیر چلے گئے، شاہ محمود

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ اس کا پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔

بعد ازاں اپریل 2017 کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو فوجی عدالت نے پاکستان کی جاسوسی، کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا، جس کی توثیق بعد میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی۔

بھارت نے 9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی تھی اور درخواست کی تھی کہ آئی سی جے پاکستان کو بھارتی جاسوس کو پھانسی دینے سے روکے جسے سماعت کیلئے مقرر کرلیا گیا۔

عالمی عدالت انصاف میں کی گئی درخواست میں بھارت نے پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔

بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو ایک بے قصور تاجر ہے جسے ایران سے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کروایا گیا، لیکن بھارت اغوا کیے جانے کے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کرسکا تھا۔

جس کے بعد 18 مئی 2018 کو عالمی عدالت انصاف نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد دفتر خارجہ نے آگاہ کیا تھا کہ آئی سی جے کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے متعلقہ اداروں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کردی۔

بعد ازاں 17 جولائی 2019 کو عالمی عدالت نے کیس کا حتمی فیصلہ سنادیا تھا جس کے مطابق کلبھوشن یادیو کو پاکستانی فوجی عدالت کی جانب سے دیا جانے والا سزائے موت کا فیصلہ منسوخ اور کلبھوشن کی حوالگی کی بھارتی استدعا مسترد کردی گئی تھی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے، جس پر پاکستان نے بھارتی جاسوس کو قونصلر رسائی فراہم کردی تھی۔

مزید پڑھیں: کلبھوشن کیس: بھارت کو وکیل مقرر کرنے کی ایک اور پیشکش کی جائے، عدالت

قبل ازیں دسمبر 2017 میں پاکستان نے کلبھوشن یادیو سے ان کی اہلیہ اور والدہ کی ملاقات بھی کروائی تھی۔

علاوہ ازیں عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد ستمبر 2019 میں کلبھوشن یادیو کو دی گئی پہلی قونصلر رسائی ویانا کنونشن اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تحت دی گئی تھی جو 2 گھنٹوں تک جاری رہی تھی۔

جس کے بعد جولائی 2020 میں پاکستان نے زیر حراست اور سزا یافتہ بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را' کے جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادیو کو دوسری مرتبہ قونصلر رسائی دی تھی۔

خیال رہے کہ 8 جولائی 2020 کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل احمد عرفان نے بتایا تھا کہ پاکستان میں گرفتار اور سزا یافتہ بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را' کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو نے اپنی سزا کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیل دائر کرنے سے انکار کردیا ہے اور اس کے بجائے انہوں نے اپنی زیر التوا رحم کی اپیل پر جواب کے انتظار کا فیصلہ کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں