پاکستان نے کلبھوشن یادیو کیس پر بھارت کا بے بنیاد بیان مسترد کردیا

اپ ڈیٹ 05 دسمبر 2020
اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت ہورہی ہے— فائل/فوٹو: ڈان
اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت ہورہی ہے— فائل/فوٹو: ڈان

پاکستان نے گرفتار بھارتی جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادیو کیس سے متعلق بھارتی وزارت خارجہ امور کے بے بنیاد اور من گھڑت بیان کو مسترد کردیا۔

ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ‘بھارت کی وزارت خارجہ امور کی جانب سے کمانڈر کلبھوشن یادیو سے متعلق جاری قانونی سماعتوں کے حوالے سے غلط اور گمراہ کن بیان کو پاکستان یکسر مسترد کرتا ہے’۔

بیان کے مطابق ‘بھارتی ہائی کمیشن کے اپنے وکیل کے بیان سے یہ واضح ہے کہ بھارتی حکومت کلبھوشن یادیو کیس کے قانونی عمل سے بھاگنا چاہتی ہے’۔

مزید پڑھیں: کلبھوشن کیس میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ہر صورت عمل ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ

دفترخارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ‘بھارتی حکومت کو یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے فیصلے کی روشنی میں پاکستان نے بھارتی ہائی کمیشن کو کمانڈر کلبھوشن یادیو سے ملاقات کی پیش کش کی تھی’۔

انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان نے کلبھوشن یادیو کے لیے وکیل تعینات کیا تاکہ سماعت ہو اور سزا پر نظرثانی کا عمل شروع ہوسکے’۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ‘سفارتی تبادلوں کے دوران بھارتی ہائی کمیشن نے اپنا وکیل مقرر کرنے سے انکار کردیا تھا اور ان کا مؤقف تھا کہ اس سے بھارت کے خود مختار استثنیٰ کے چھوٹ پر فرق پڑے گا’۔

کلبھوشن یادیو کے لیے وکیل کی تقرری کے حوالے سے کہا گیا کہ 'حکومت پاکستان مجبور ہوئی کہ کمانڈر کلبھوشن یادیو کے لیے سرکاری وکیل تعینات کرے تاکہ قانونی عمل شروع ہو'۔

دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ‘سماعت کے دوران بھارت کے مؤقف میں خامیاں سامنے آئیں، اٹارنی جنرل آف پاکستان نے پاکستان میں زیر حراست بھارت کے شہری محمد اسمٰعیل کیس کا حوالہ دیا جہاں بھارتی ہائی کمیشن نے شاہ نواز نون کو اپنا وکیل بنایا تھا’۔

دفتر خارجہ نے بتایا کہ ‘بھارتی وزارت خارجہ کے جھوٹے بیان کے برعکس کمانڈر کلبھوشن یادیو کے کیس کو بھارت کے دوسرے قیدی محمد اسمٰعیل سے جوڑنے کی کوئی کوشش نہیں کی’۔

یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن یادیو کیلئے وکیل مقرر کرنے کی حکومتی درخواست 3 اگست کو سماعت کیلئے مقرر

ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘دونوں کیسز مکمل طور پر الگ ہیں، اسمٰعیل کا حوالہ دینے کا مقصد صرف غلطیوں اور بھارت کے مؤقف میں غیر تسلسل کو دکھانا تھا’۔

بیان میں کہا گیا کہ ‘آئی سی جے کے فیصلے کی روشنی میں پاکستان پہلے ہی بھارتی ہائی کمیشن کو دو مرتبہ قونصلر رسائی دے چکا ہے اور مؤثر نظرثانی کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے اور تیسری مرتبہ قونصلر رسائی کی پیش کش موجود ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘بھارت پر ایک مرتبہ پھر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے روایتی اور تاخیری حربے استعمال کرنے سے باز آئے’۔

دفتر خارجہ کے بیان میں بھارت پر زور دیا گیا کہ ‘عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ قانونی عمل تکیمل کو پہنچے اور آئی سی جے کے فیصلے پر مکمل عمل درآمد ہو’۔

دفتر خارجہ نے یہ بیان ایک ایسے موقع پر دیا جب ایک دن قبل ہی بھارت نے پاکستان پر کلبھوشن یادیو کیس کو دوسرے قیدی کے کیس سے جوڑنے کا الزام لگایا تھا۔

اس سے قبل جمعرات کے روز ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے دعویٰ کیا تھا کہ معمول کی قونصلر مشق کے دوران شاہنواز نون کو اسلام آباد میں ہندوستانی ہائی کمیشن نے منتخب کیا تھا تاکہ پاکستان میں قید ہندوستانی قیدی محمد اسماعیل کی رہائی اور وطن واپسی سے متعلق کیس میں پیش ہوں جنہوں نے اپنی سزا پوری کر لی ہے لیکن وہ اب بھی جیل میں ہیں۔

بھارتی ترمان نے مزید کہا تھا کہ تاہم اسماعیل سے متعلق کیس کی کارروائی کے دوران پاکستانی اٹارنی جنرل نے یہ معاملہ کلبھوشن یادیو سے متعلق کیس کے دوران اٹھایا حالانکہ یہ دونوں معاملات کسی بھی طرح سے ایک دوسرے منسلک نہیں ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ شاہ نواز نون نے ہمارے ناظم الامور کے بارے میں یہ بیانات دیے ہیں جو سچ نہیں ہیں اور وہ اس معاملے میں ہمارے مؤقف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ بیرسٹر شاہ نواز نون نے یہ دباؤ ڈالا اور بھارتی ہائی کمیشن کے منصب کی غلط انداز میں نمائندگی کی۔

کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور عالمی عدالت میں مقدمہ

یاد رہے کہ ’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ انہیں ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی سفارت کار کلبھوشن کی کوئی بات سنے بغیر چلے گئے، شاہ محمود

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ اس کا پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔

بعد ازاں اپریل 2017 کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو فوجی عدالت نے پاکستان کی جاسوسی، کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا، جس کی توثیق بعد میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی۔

بھارت نے 9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی تھی اور درخواست کی تھی کہ آئی سی جے پاکستان کو بھارتی جاسوس کو پھانسی دینے سے روکے جسے سماعت کیلئے مقرر کرلیا گیا۔

عالمی عدالت انصاف میں کی گئی درخواست میں بھارت نے پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔

بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو ایک بے قصور تاجر ہے جسے ایران سے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کروایا گیا، لیکن بھارت اغوا کیے جانے کے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کرسکا تھا۔

جس کے بعد 18 مئی 2018 کو عالمی عدالت انصاف نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد دفتر خارجہ نے آگاہ کیا تھا کہ آئی سی جے کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے متعلقہ اداروں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کردی۔

بعد ازاں 17 جولائی 2019 کو عالمی عدالت نے کیس کا حتمی فیصلہ سنادیا تھا جس کے مطابق کلبھوشن یادیو کو پاکستانی فوجی عدالت کی جانب سے دیا جانے والا سزائے موت کا فیصلہ منسوخ اور کلبھوشن کی حوالگی کی بھارتی استدعا مسترد کردی گئی تھی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے، جس پر پاکستان نے بھارتی جاسوس کو قونصلر رسائی فراہم کردی تھی۔

مزید پڑھیں: کلبھوشن کیس: بھارت کو وکیل مقرر کرنے کی ایک اور پیشکش کی جائے، عدالت

قبل ازیں دسمبر 2017 میں پاکستان نے کلبھوشن یادیو سے ان کی اہلیہ اور والدہ کی ملاقات بھی کروائی تھی۔

علاوہ ازیں عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد ستمبر 2019 میں کلبھوشن یادیو کو دی گئی پہلی قونصلر رسائی ویانا کنونشن اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تحت دی گئی تھی جو 2 گھنٹوں تک جاری رہی تھی۔

جس کے بعد جولائی 2020 میں پاکستان نے زیر حراست اور سزا یافتہ بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را' کے جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادیو کو دوسری مرتبہ قونصلر رسائی دی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں