سری لنکن وزیر اعظم پر مستعفی ہونے کیلئے دباؤ بڑھ گیا

اپ ڈیٹ 24 اپريل 2022
دباؤ کے شکار سری لنکن صدر نے اپنے دو بھائیوں اور بھتیجے کو رواں ماہ کابینہ سے نکال دیا تھا — فوٹو: رائٹرز
دباؤ کے شکار سری لنکن صدر نے اپنے دو بھائیوں اور بھتیجے کو رواں ماہ کابینہ سے نکال دیا تھا — فوٹو: رائٹرز

سری لنکا کے وزیر اعظم کو مستعفی ہونے کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے کیونکہ کابینہ کے ایک وزیر اور پارٹی کے دیگر سینئر اراکین نے بڑھتے ہوئے معاشی بحران پر استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر ہونے والے احتجاج کی حمایت کردی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع عالمی خبر ساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق وزیر اطلاعات نالاکا گوداہیوا نے صدر گوٹابایا راجا پکسے کے دفتر کے باہر ان ہزاروں لوگوں کی حمایت کا اعلان کیا جو ان سے اور ان کے طاقتور خاندان کے دیگر افراد سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سری لنکا 1948 میں آزادی کے بعد سے اپنی سب سے تکلیف دہ معاشی بدحالی کا شکار ہے، مہینوں کے طویل بلیک آؤٹ کے ساتھ خوراک، ایندھن اور دیگر ضروری اشیا کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سری لنکا میں معاشی بحران کےخلاف احتجاج میں پہلی ہلاکت

اس بحران نے ملک بھر میں مظاہروں کو جنم دیا ہے، مشتعل مظاہرین نے 3 ہفتوں سے زائد عرصے سے گوٹابایا راجا پکسے کے دفتر کے باہر ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

دباؤ کے شکار سری لنکن صدر نے اپنے دو بھائیوں چمل اور باسل اور بھتیجے نمل کو رواں ماہ کابینہ سے نکال دیا لیکن مظاہرین نے ان تبدیلیوں کو دکھاوا کہہ کر مسترد کر دیا۔

گوداہیوا (جو پہلے گوٹابایا راجا پکسے کے وفادار تھے) نے کہا کہ صدر کو اپنے بڑے بھائی وزیر اعظم مہندا راجا پکسے کو برطرف کرنا چاہیے اور ایک کُل جماعتی عبوری حکومت کو اقتدار سنبھالنے کی اجازت دیں۔

مزید پڑھیں: سری لنکا: معاشی بحران کے باعث عوام میں اشتعال، دارالحکومت میں سیکیورٹی بڑھا دی گئی

انہوں نے کہا کہ مظاہرین میں شامل ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت کے بعد حکومت اپنی ساکھ کھو چکی ہے، انہوں نے بتایا کہ انہوں نے استعفے کی پیشکش کی تھی لیکن صدر گوٹابایا راجا پکسے نے اسے قبول نہیں کیا۔

گوداہیوا نے اپنے فیس بک پیج پر ایک بیان میں کہا کہ ہمیں معاشی بحران کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی استحکام کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سمیت پوری کابینہ کو مستعفی ہو جانا چاہیے اور ایک عبوری کابینہ ہونی چاہیے جو سب کا اعتماد جیت سکے۔

42 سالہ چمندا لکشن کی آخری رسومات سے قبل پولیس اور فوج نے مرکزی قصبے رامبوکانہ میں سیکیورٹی بڑھا دی جسے اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا جب پولیس نے ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج روکنے کے لیے ہجوم پر براہ راست گولیاں چلادیں۔

تبصرے (0) بند ہیں