ناظم جوکھیو قتل کیس کی سیشن کورٹ منتقلی سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج

اپ ڈیٹ 27 مئ 2022
جبران ناصر نے کہا کہ این سی ایچ آر نے کیس میں مداخلت کا فیصلہ کیا کیونکہ یہ انسانی حقوق کی  کھلی خلاف ورزی ہے—فائل فوٹو : ڈان نیوز
جبران ناصر نے کہا کہ این سی ایچ آر نے کیس میں مداخلت کا فیصلہ کیا کیونکہ یہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے—فائل فوٹو : ڈان نیوز

سندھ ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) کی جانب سے ناظم جوکھیو کیس کو ٹرائل کے لیے سیشن کورٹ بھیجنے کے حکم کے خلاف قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) کی دائر درخواست پر پراسیکیوٹر جنرل کو نوٹس جاری کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق این سی ایچ آر نے اے ٹی سی-15 کے 25 مئی کے حکم کے خلاف فوجداری نظرثانی کی درخواست دائر کی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ جج نے کیس کے دائرہ اختیار کے نقطہ پر درخواست گزار کے سامعین کے حق کو کم کیا اور ریکارڈ پر موجود حقائق کی تعریف کیے بغیر حکم جاری کیا۔

ابتدائی سماعت کے بعد جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے اپنے حکم میں کہا کہ ’اس فوجداری نظرثانی کی درخواست کو برقرار رکھنے کے لیے پراسیکیوٹر جنرل سندھ کو 20 جون 2022 کے لیے نوٹس جاری کیا جائے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو کا قتل دہشت گردی نہیں، انسداد دہشتگردی عدالت

این سی ایچ آر کے وکیل جبران ناصر نے کہا کہ کمیشن نے کیس میں مداخلت کرنے کے لیے اے ٹی سی سے رجوع کیا تھا لیکن عدالت نے 29 اپریل کے اپنے حکم میں فیصلہ دیا کہ وہ پہلے کیس کے دائرہ اختیار کا فیصلہ کرے گی اور پھر این سی ایچ آر کی جانب سے دائر درخواست سمیت زیر التوا درخواستوں پر فیصلہ کرے گی۔

تاہم انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ 25 مئی کو اے ٹی سی کے جج نے کیس کا نوٹس لینے سے انکار کردیا اور دیگر دستاویزات اور پولیس کاغذات کے ساتھ چارج شیٹ تفتیشی افسر کو واپس کردی جس کو متعلقہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر کرنے کی ہدایت دی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ این سی ایچ آر نے اے ٹی سی کے 29 اپریل کے حکم کے خلاف فوجداری نظرثانی کی درخواست بھی دائر کی تھی اور یہ سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: پولیس کا سندھ حکومت کی درخواست پر تفتیشی افسر تبدیل کرنے سے انکار

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار ایک وفاقی قانونی ادارہ ہے جسے این سی ایچ آر ایکٹ 2012 کے تحت انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے بنایا گیا تھا اور سیکشن 9 کے مطابق اسے کسی بھی کارروائی میں مداخلت کرنے کا اختیار استعمال کرنا چاہیے جس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا کوئی الزام کسی عدالت میں زیر التوا ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے این سی ایچ آر نے زیر بحث کیس میں مداخلت کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ یہ انسانی حقوق کی انتہائی کھلی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تازہ چارج شیٹ میں پیپلز پارٹی کے دونوں ارکان اسمبلی جام اویس اور ان کے بڑے بھائی جام عبدالکریم کو اس بہانے سے بری کر دیا گیا کہ مقتول کی بیوہ نے انہیں معاف کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل: پی پی پی کے دو اراکین اسمبلی سمیت 23ملزمان چارج شیٹ میں شامل

ایڈووکیٹ جبران ناصر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مقتول کے اہل خانہ پر سندھ حکومت اور بااثر ملزمان کی جانب سے سمجھوتہ کرنے کے لیے شدید دباؤ رہا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ صوبائی حکام اور پروسیکیوشن، ملزمان کو سہولت فراہم کر رہے ہیں اور ان میں سے 2 پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی بھی ہیں۔

انہوں نے استدلال کیا کہ یہ جرم انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 6 کے تحت دہشت گردی کی تعریف میں آتا ہے، انہوں نے اے ٹی سی کے غیر قانونی حکم کو خارج کرنے اور کیس کو اے ٹی سی کو واپس بھیجنے کی استدعا کی۔

مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: عدالت کی 2 روز میں چالان جمع کرنے کی ہدایت

ناظم جوکھیو کو تشدد کرکے قتل کیا گیا تھا اور ان کی لاش 3 نومبر کو رکن اسمبلی جام اویس کے ملیر میں واقع فارم ہاؤس سے ملی تھی، وہ مبینہ طور پر ان بااثر بھائیوں کے غصہ کا نشانہ بنے تھے کیونکہ انہوں نے اپنے گاؤں میں غیر ملکی مہمانوں کو شکار کرنے سے روکا تھا۔

8 فروری کو ایک جوڈیشل مجسٹریٹ نے آئی او کو اے ٹی سی کے انتظامی جج کے سامنے چارج شیٹ اور دیگر کاغذات جمع کرنے کی ہدایت کی تھی کیونکہ انہوں نے مشاہدہ کیا تھا کہ ملزمان کا ان کارروائیوں کے پیچھے عوام میں عدم تحفظ اور خوف پیدا کرنے کے سوا کوئی اور ارادہ یا محرک نہیں تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں