ناظم جوکھیو کا قتل دہشت گردی نہیں، انسداد دہشتگردی عدالت

ناظم جوکھیو کو 3 نومبر 2021 کو ملیر میں پیپلز پارٹی کے ایم پی اے کے فارم ہاؤس پر تشدد کر کے ہلاک کیا گیا تھا—فائل فوٹو : ڈان نیوز
ناظم جوکھیو کو 3 نومبر 2021 کو ملیر میں پیپلز پارٹی کے ایم پی اے کے فارم ہاؤس پر تشدد کر کے ہلاک کیا گیا تھا—فائل فوٹو : ڈان نیوز

انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے ناظم جوکھیو کے قتل کو ’دہشت گردی‘ کی کارروائی نہ قرار دیتے ہوئے کیس کو ٹرائل کے لیے سیشن کورٹ بھیج دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کرنے والے اے ٹی سی- 15 جج نے ریاستی پراسیکیوٹر، شکایت کنندہ افضل جوکھیو کے وکیل، پی پی پی کے زیر حراست قانون ساز جام اویس، ان کے بھائی جام ابو الکریم اور مقتول کی بیوہ شیریں کے دلائل سننے کے بعد چارج شیٹ پر اپنا حکم سنایا۔

پولیس پہلے ہی ملزمان کی فہرست سے پاکستان پیپلز پارٹی کے دونوں موجودہ ارکان اسمبلی کے نام خارج کر چکی ہے کیونکہ تفتیشی افسر نے صرف ان کے 2 ملازمین حیدر علی اور میر علی کا نام ناظم جوکھیو کے قتل، ان کے خاندان کو ڈرانے اور دہشت گردی کے الزام میں چارج شیٹ میں شامل کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: پولیس کا سندھ حکومت کی درخواست پر تفتیشی افسر تبدیل کرنے سے انکار

10 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں اے ٹی سی کے جج نے لکھا کہ مذکورہ کیس کے قانون کے پیش نظر یہ بات طے ہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ (ملیر) کی جانب سے کیس کو تفتیشی افسر کو واپس کرنے کے لیے انسداد دہشتگردی کی عدالت کے انتظامی جج کے سامنے پیش کیے جانے کا حکم نامے کا اثر موجودہ عدالت کے پابند نہیں تھا، جو حکم سے متاثر ہوئے بغیر نوٹس لینے یا بصورت دیگر فیصلے کرنے میں آزادی تھی۔

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ تفتیش کے دوران آئی او انسپکٹر سراج لاشاری کی جانب سے جمع کی گئی ایف آئی آر اور دیگر شواہد سے یہ بات سامنے آئی کہ ملزم رکن اسمبلی جام اویس کے غیر ملکی مہمان تلور کا شکار کر رہے تھے جس پر مقتول اور ان کے بھائی نے انہیں ایسا کرنے سے روکا اور ویڈیو بنائی، اس دوران ملزمان ان سے تنگ ہوئے اور ناظم جوکھیو کو اپنی رہائش گاہ پر بلاکر اسے سوشل میڈیا سے ویڈیوز حذف کرنے اور غیر ملکیوں سے معافی مانگنے پر مجبور کیا لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔

جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’اس کے بدلے میں ناظم جوکھیو کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مبینہ واقعہ نجی تنازع اور انتقامی کارروائی کو آگے بڑھانے کے لیے پیش آیا جبکہ اس واقعے میں دہشت گردی کو پھیلانے کا کوئی منصوبہ یا مقصد سامنے نہیں آیا، اس لیے یہ دہشت گردی کی تعریف اور مقدمے کی سماعت کے لیے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔

مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل: پی پی پی کے دو اراکین اسمبلی سمیت 23ملزمان چارج شیٹ میں شامل

جج نے 2020 کے ایک کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے حکم میں لکھا کہ ’مذکورہ بالا بحث کے پیش نظر فریقین کے درمیان تنازع ذاتی دشمنی اور نجی انتقام کو آگے بڑھانے کے لیے ظاہر ہوتا ہے اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 6 کی دفعہ (1) کی ذیلی شق بی یا سی کے مطابق مذکورہ جرم میں کوئی ترتیب یا مقصد نہیں ہے، لہذا مذکورہ کیس کے قوانین پر انحصار کرتے ہوئے نوٹس لینے سے انکار کیا جاتا ہے‘۔

انہوں نے چارج شیٹ کو کارروائی کے ریکارڈ کے ساتھ انویسٹیگیشن آفیسر کو واپس کر دیا جس میں اسے دائرہ اختیار رکھنے والی ایک عام مجسٹریل عدالت کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت کی۔

قبل ازیں ریاستی پراسیکیوٹر طاہرہ اختر دیپر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (اے ڈی جے) ملیر نے کچھ ملزمان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ سناتے ہوئے غلط اندازہ لگایا تھا کہ مقدمہ اے ٹی سی کے زیر سماعت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: عدالت کی 2 روز میں چالان جمع کرنے کی ہدایت

پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ (ملیر) نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کے حکم سے متاثر نہ ہو کر اپنے عدالتی ذہن کو کیس کے حالات اور حقائق میں لاگو نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ مجسٹریٹ کے 8 فروری کے حکم کی وجہ سے آئی او کے پاس اے ٹی سی کے سامنے چارج شیٹ پیش کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا، ورنہ اس مقدمے میں دہشت گردی کے عناصر غائب ہیں، جن کی اے ٹی سی کے انتظامی جج کے پبلک پراسیکیوٹرکی قانونی رائے سے تائید اور اطلاع بھی ملتی ہے۔

تاہم پراسیکیوٹر نے استدلال کیا کہ موجودہ عدالت مقدمے کی سماعت کے لیے جے ایم کے حکم کی پابند نہیں ہے کیونکہ موجودہ عدالت ایک آزاد نظریہ بنائے گی۔

مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: بیوہ کا پی پی پی اراکین اسمبلی سمیت تمام ملزمان کیلئے معافی کا اعلان

انہوں نے آئی او کو چارج شیٹ واپس کرنے کی ہدایت کے ساتھ اسے عام عدالت کے سامنے پیش کرنے کی درخواست کی جو اسے قانون کے مطابق نمٹانے کا اختیار رکھتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ شکایت کنندہ افضل جوکھیو کے ایڈووکیٹ شبیح عشرت حسین، مقتول کی بیوہ شیریں کے وکیل رحمن غوث کے سمیت زیر حراست ایم پی اے جام اویس، ایم این اے کریم اور آئی او کے وکیل نے ریاستی پراسیکیوٹر کے دلائل کی حمایت کی۔

وکیل وزیر حسین کھوسو، مظفر حسین سولنگی، راجہ علی واحد کنور، صغیر احمد عباسی، بیرسٹر غلام مصطفیٰ مہیسر اور دیگر نے پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی، ان کے محافظوں اور ملازمین کی نمائندگی کی۔

ناظم جوکھیو کو 3 نومبر 2021 کو ملیر میں پیپلز پارٹی کے ایم پی اے کے فارم ہاؤس پر تشدد کر کے ہلاک کیا گیا تھا۔

مقتول کے بھائی افضل جوکھیو کی شکایت پر میمن گوٹھ تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں