ناظم جوکھیو قتل: پی پی پی کے دو اراکین اسمبلی سمیت 23ملزمان چارج شیٹ میں شامل

21 دسمبر 2021
ناظم جوکھیو کو 3 اکتوبر کو قتل کردیا گیا تھا—فائل/فوٹو: ڈان نیوز
ناظم جوکھیو کو 3 اکتوبر کو قتل کردیا گیا تھا—فائل/فوٹو: ڈان نیوز

پولیس نے ناظم جوکھیو قتل کیس میں جوڈیشل مجسٹریٹ کو عبوری تفتیشی رپورٹ پیش کردی، جس میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے دو اراکین اسمبلی اور ان کے غیرملکی مہمانوں سمیت 23 مشتبہ افراد کو چارج شیٹ میں نامزد کرلیا تاہم ان کا کردار واضح نہیں کیا۔

کراچی میں جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر الطاف حسین نے مقدمے کی سماعت کی جہاں تفتیشی افسر نے رپورٹ پیش کی۔

مزید پڑھیں: جوکھیو قتل کیس: درخواست گزار نے جام کریم سے متعلق بیان ‘دباؤ’ میں دیا، لواحقین

تفتیشی افسر نے چارج شیٹ میں رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم، ان کے دو غیرملکی مہمانوں، چار نامعلوم ملازمین نظار سالار، احمد شورو، عطامحمد اور ذہیم اور رکن اسمبلی کے 5 گارڈز کو نامزد کردیا ہے۔

انہوں نے مذکورہ مشتبہ افراد کو مفرور قرار دے دیا۔

تفتیشی افسر نے گرفتار 6 ملزمان رکن قومی اسمبلی جام اویس بجار سمیت ان کے 5 ملازمین مہر علی، حیدر علی، محمد معراج، جام وحید اور عبدالرزاق کو چارج شیٹ میں شامل کرلیا ہے۔

ضمانت حاصل کرنے والےدیگر 5 مشتبہ افراد محمد خان جوکھیو، محمد اسحٰق جوکھیو، محمد سلیم سالار، دودو خان اور سومر سالار بھی چارج شیٹ میں نامزد ہیں۔

تفتیشی افسر نے رپورٹ کے لیے اراکین اسمبلی دونوں بھائیوں، مقتول کے رشتہ داروں اور دیگر گواہوں سے ملاقات کی اور کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 161 کے تحت ان کے بیانات ریکارڈ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: پیپلزپارٹی کے ایک اور رکن اسمبلی مقدمےمیں نامزد

انہوں نے رپورٹ میں بتایا کہ انہوں نے اس جگہ کا بھی جائزہ لیا جہاں مبینہ طور پر ناظم جوکھیو کا قانون سازوں کے غیرملکی مہمانوں سے جھگڑا ہوا تھا اور فیس بک پر ویڈیو اپ لوڈ کی تھی جو ان کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی۔

تفتیشی افسر نے بتایا کہ وہ جام اویس کے فارم ہاؤس میں بھی گئے اور ایک تیزدھار آلہ اور لکڑی کا تختہ برآمد کرلیا جس میں مقتول کا خون لگا ہوا تھا اور انہیں مبینہ طور پر حراست میں تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ مشتبہ افراد نے مقتول کے کپڑے اور موبائل فون نذر آتش کیا اور کنوئیں میں پھینک دیا لیکن وہ چیزیں برآمد کرلی گئیں اور فرانزک جائزے کے لیےلیبارٹری بھیج دیا گیا جس کے ساتھ ڈیجیٹل ویڈیو ریکارڈر (ڈی وی آر) فوٹیج بھی بھیج دی گئیں جو فارم ہاؤس سے برآمد کرلی گئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ، ہسٹوپیتھالوجی، ڈی وی آر کی فارنزک تجزیاتی رپورٹ، مقتول کا موبائل فون، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو فرانزک تجزیے کے لیے بھیجی گئی یو ایس بی کی رپورٹ کا تاحال انتظار ہے۔

تفتیشی افسر نے عدالت سے استدعا کی کہ عبوری چارج شیٹ جمع کرلی جائے اور حتمی رپورٹ جمع کرنے کے لیے مزید 10 دن دے دیں۔

مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: پی پی پی رکن اسمبلی کے جسمانی ریمانڈ میں 3 روز کی توسیع

عدالت نے تفتیشی افسر کی استدعا قبول کرتے ہوئے حتمی رپورٹ 10 روز میں جمع کرنے کی ہدایت کردی

خیال رہے کہ مقتول ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو نے پی پی پی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور ان کے بڑے بھائی رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم اور ان کے ملازموں کو 27 سالہ ناظم جوکھیو کے قتل میں نامزد کردیا تھا۔

مقتول نے مبینہ طور پر جام اویس کے غیرملکی مہمانوں کو تلور کے شکار سے روکا تھا اور اس کےنتیجے میں انہیں مبینہ طور پر ٹھٹہ میں جام اویس کے فارم ہاؤس میں تشدد کر کے قتل کیا گیا تھا۔

ناظم جوکھیو کا قتل

کراچی کے علاقے ملیر میں 3 اکتوبر کو پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس سے ایک شخص کی لاش ملی تھی، جسے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔

میمن گوٹھ کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) خالد عباسی نے بتایا تھا کہ ناظم سجاول جوکھیو کی تشدد زدہ لاش جام ہاؤس نامی فارم ہاؤس سے بدھ کی دوپہر ڈھائی بجے ملی جو ملیر کے جام گوٹھ میں پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کا فارم ہاؤس ہے۔

ایس ایچ او نے مزید کہا تھا کہ پولیس نے مقدمے میں ملوث ہونے کے شبہے میں دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس میں مبینہ قتل، لواحقین کا دوسرے روز بھی احتجاج

مقتول کے بھائی اور کراچی کے علاقے گھگر پھاٹک کے سابق کونسلر افضل جوکھیو نے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم پر اپنے بھائی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔

ان سمیت دیگر رشتے داروں نے یہ الزام ایک ویڈیو کی بنیاد پر لگایا تھا جو ان کے بقول ناظم نے ریکارڈ کی تھی، مذکورہ ویڈیو میں ناظم نے بتایا تھا کہ انہوں نے نے ٹھٹہ کے جنگشاہی قصبے کے قریب اپنے گاؤں میں تلور کا شکار کرنے والے کچھ بااثر افراد کے مہمانوں کی ویڈیو بنائی تھی جس پر انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔

مذکورہ ویڈیو میں مقتول نے بتایا تھا کہ اس نے تلورکا شکار کرنے والے چند افراد کی ویڈیو اپنے موبائل فون پر بنائی تھی جس کی وجہ سے اس کا فون چھین لیا گیا اور مارا پیٹا بھی گیا تھا، انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ ان کا فون واپس کر دیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کی تھی۔

تاہم فون کرنے کے باوجود بھی جب پولیس مدد کے لیے نہیں پہنچی اور شکار کرنے والے واپس چلے گئے تو وہ تشدد کی شکایت درج کرانے کے لیے مقامی تھانے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: جوکھیو قتل کیس: گورنر سندھ کا ’وفاقی جے آئی ٹی‘ تشکیل دینے کا عندیہ

مقتول نے ویڈیو میں بتایا تھا کہ انہیں دھمکی آمیز فون آئے اور کہا گیا کہ وہ ویڈیو ڈیلیٹ کردیں یا پھر سنگین نتائج کے لیے تیار رہیں، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا اگر انہیں کسی قسم کا نقصان پہنچا تو اس کے ذمے دار وہ لوگ ہوں گے جن افراد کے گھر ’شکاری مہمان‘ ٹھہرے تھے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بدترین تشدد کی تصدیق

مقتول ناظم جوکھیو کا پوسٹ مارٹم ڈاکٹر محمد اریب نے کیا تھا جس میں انکشاف ہوا کہ سر سمیت پورے جسم پر بے شمار زخم تھے۔

بدترین تشدد کے باعث مقتول کو اندرونی طور پر خون کا رساؤ شروع ہوگیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق لاش پر سخت اور نوکیلی چیزوں سے تشدد کیے جانے کے نشانات تھے جبکہ نازک عضو پر بھی بری طرح مارنے کے نشان تھے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پورے چہرے پر سرخ اور جامنی رنگ کے متعدد زخم تھے جب کہ آنکھیں گہرے زخموں کے ساتھ سوجی ہوئی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں