ناظم جوکھیو قتل کیس: عدالت کی 2 روز میں چالان جمع کرنے کی ہدایت

اپ ڈیٹ 15 مارچ 2022
27 سالہ ناظم جوکھیو کو 3 نومبر کو کراچی کے ضلع ملیر میں جام اویس کے فارم ہاؤس میں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا— فائل فوٹو: ڈان نیوز
27 سالہ ناظم جوکھیو کو 3 نومبر کو کراچی کے ضلع ملیر میں جام اویس کے فارم ہاؤس میں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا— فائل فوٹو: ڈان نیوز

کراچی کی مقامی عدالت نے ناظم جوکھیو قتل کیس کے تفتیشی افسر کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ چالان انسداد دہشت گردی کی عدالت کے منتظم جج کے پاس بغیر کسی عذر کے دو دن کے اندر پیش کر دیں۔

جوڈیشل مجسٹریٹ (ملیر) الطاف حسین تونیو نے انوسٹی گیشن افسر انسپکٹر سراج الدین لاشاری کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم کی تعمیل میں ناکامی کی صورت میں ان کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

مجسٹریٹ نے یہ ہدایات ناظم جوکھیو کے قانونی ورثا کی جانب سے دائر درخواست کو نمٹاتے ہوئے دیں، درخواست میں عدالت کے رواں برس 8 فروری کے حکم کے مطابق چالان/ چارج شیٹ/ ریکارڈ اور مقدمہ کی کارروائی اے ٹی سی کے انتظامی جج کو داخل نہ کرنے پر تفتیشی افسر کے خلاف کارروائی کی اپیل کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:ناظم جوکھیو قتل: عدالت کی ملزم جام اویس کو جیل میں بی کلاس فراہم کرنے کی ہدایت

مقتول کے قانونی ورثا کی جانب سے درخواست دائر کرنے والے ایڈووکیٹ سید خلیل احمد نے عدالت کو یاد دلایا کہ موجودہ عدالت نے فوجداری ضابطہ اخلاق (سی آر پی سی) کی دفعہ 173 کے تحت آئی او کی جانب سے دائر حتمی رپورٹ/ چارج شیٹ واپس کرتے ہوئے ہدایت دی تھی کہ پولیس رپورٹ کو فائل اور کاغذات سمیت اے ٹی سی کے منتظم جج کے سامنے جمع کرانے جائیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ کافی وقت گزرنے کے باوجود 8 فروری کو جاری کردہ ہدایت کے مطابق تفتیشی افسر انسپکٹر سراج الدین لاشاری اے ٹی سی کی انتظامی عدالت میں پولیس کے کاغذات جمع کرانے میں ناکام رہے۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا عدالت کی سابقہ ہدایات کی تعمیل میں کیس کا ریکارڈ اور کارروائی اے ٹی سی کو جمع نہ کرانے پر انویسٹی گیشن افسر انسپکٹر سراج الدین لاشاری کے خلاف کارروائی کی جائے۔

درخواست گزار وکیل کے دلائل پر اعتراض کرتے ہوئے، زیر حراست رکن صوبائی اسمبلی اویس بجر کے وکیل نے دلیل دی کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی موجودہ عدالت کے پاس اس درخواست پر غور کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، یہ درخواست سننے اور اس پر حکم دینے کے لیے بالکل بھی موضوع فورم نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: ملیر میں رکن صوبائی اسمبلی کے فارم ہاؤس سے لاش برآمد

انہوں نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ یہ معاملہ پہلے ہی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت تھا، اس لیے اس طرح موجودہ عدالت کو درخواست پر مداخلت کرنے یا کسی درخواست کو منظور کرنے کا اختیار نہیں ہے، ملزمان کے وکیل نے درخواست خارج کرنے کی استدعا کی۔

قتل کے کیس میں نامزد دیگر ملزمان جمال اور معراج کے وکیل صفائی نے بھی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ اسے قابل سماعت نہ ہونے کی وجہ سے خارج کر دی جائے۔

عدالت کے نوٹس پر پیش ہوتے ہوئے انویسٹی گیشن افسر انسپکٹر سراج الدین لاشاری نے تحریری جواب جمع کرایا جس میں کہا گیا کہ 9 فروری کو انہوں نے کیس کا ریکارڈ اور کارروائی (آراینڈپیز) حاصل کر لی تھی اور موجودہ عدالت کی ہدایات کی تعمیل کرتے ہوئے اے ٹی سی کے انتظامی جج کے عدالتی عملے سے ملاقات کی جہاں عملے نے انہیں سرکاری وکیل کے سامنے کیس کی فائل پیش کرنے کی ہدایت کی۔

اس کے بعد، تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ وہ پبلک پراسیکیوٹر کے سامنے پیش ہوئے، جنہوں نے ان سے مزید احکامات کے لیے پراسیکیوٹر جنرل سندھ کے دفتر میں فائل پیش کرنے کو کہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جوکھیو قتل کیس: پی پی پی رکن اسمبلی 3 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

آئی او سراج الدین لاشاری نے مزید کہا کہ پھر وہ پراسیکیوٹر جنرل سندھ سے ملے اور پولیس فائل ان کے حوالے کی، انہوں نے مزید کہا کہ چھان بین کا جواب یکم مارچ کو سرکاری وکیل کو جمع کرایا گیا تھا۔

آخر میں ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پولیس فائل ان کے پاس موجود ہے اور وہ اے ٹی سی کے انتظامی جج کے سامنے ریکارڈ اور کارروائی جمع کرائیں گے۔

مجسٹریٹ نے آبزرویشن دی کہ کیس کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ تفتیش مکمل ہو چکی ہے، پراسیکیوشن کی جانب سے حتمی تفتیشی رپورٹ بھیجی گئی تھی جس میں پانچ ملزمان کو حراست میں، چار کو مفرور اور سات دیگر کو بے گناہ ظاہر کیا گیا تھا، اس طرح ان کے خلاف ثبوت کی عدم دستیابی کی وجہ سے انہیں چھوڑ دیا گیا۔

مجسٹریٹ نے نوٹ کیا کہ فریقین کو سننے کے بعد اس نے حتمی تحقیقاتی رپورٹ پر 8 فروری کو حکم جاری کیا تھا، حتمی تحقیقاتی رپورٹ/ چارج شیٹ کے ساتھ مکمل پولیس فائل/ کاغذات کا جاائزہ لینے کے بعد اس بات کے ظاہر ہونے کے بعد کہ یہ معاملہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اسے اے ٹی سی کے منتظم جج کے سامنے پیش کرنے کے لیے واپس کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:ناظم جوکھیو قتل کیس: پیپلزپارٹی کے ایک اور رکن اسمبلی مقدمےمیں نامزد

موجودہ درخواست پر غور کرنے کے اختیارات رکھنے کے بارے میں وکیل دفاع کے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے مجسٹریٹ نے رائے دی کہ اس طرح کے دلائل کی کسی بھی طرح سے کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ حکم کی تعمیل سے متعلق فیصلہ ، موجودہ عدالت کے ذریعہ پہلے منظور کیا گیا تھا۔

جج نے فیصلہ دیا 'لہذا، یہ عدالت کارروائی کرنے یا منظور کردہ قانونی حکم کی تعمیل کرنے کی ہدایت کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

انہوں نے حکم دیا کہ تفتیشی افسر کو سختی سے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ 8 فروری کے پہلے کے حکم نامے کی بغیر کسی ناکامی اور بغیر کسی عذر کے تعمیل کرے اور دو دن کے اندر انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے انتظامی جج کے روبرو آر اینڈ پیز پیش کرے اور اس کی تعمیلی رپورٹ پیش کرے۔

انہوں نے تنبہیہ کرتے ہوئے کہا کہ "حکم کی تعمیل ناکام ہونے کی صورت میں ان کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:جوکھیو قتل کیس: پی پی پی رکن اسمبلی 3 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

درخواست کو نمٹاتے ہوئے مجسٹریٹ نے دفتر کو ہدایت کی کہ اس آرڈر کی کاپی اس کی معلومات کے لیے اے ٹی سی کے منتظم جج کو بھیج دی جائے۔

ابتدائی طور پر مقتول کے بھائی افضل جوکھیو کی مدعیت میں میمن گوٹھ تھانے میں قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

27 سالہ ناظم جوکھیو کو گزشتہ سال 3 نومبر کو ملیر میں پی پی پی کے ایم پی اے جام اویس کے فارم ہاؤس پر تشدد کر کے ہلاک کیا گیا تھا۔

مقتول کے بھائی افضل جوکھیو نے پی پی پی کے ایم پی اے جان اویس، ان کے بڑے بھائی ایم این اے جام عبدالکریم، ان کے ملازمین اور محافظوں کو قانون سازوں کے عرب مہمانوں کو تلور کے شکار سے روکنے، شکار کرنے کی ویڈیو بنانے اور اس وڈیو کو سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر شیئر کرنے کی پاداش میں ناظم جوکھیو کو قتل کرنے کے الزام میں نامزد کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں