پنجاب کی اتحادی حکومت کا بجٹ پیش کرنے کیلئے ’اپنا علیحدہ‘ اجلاس بلانے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 15 جون 2022
اسپیکر نے صوبائی وزیر کو کہا کہ گورنر کے فیصلے کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے — فوٹو: ڈان نیوز
اسپیکر نے صوبائی وزیر کو کہا کہ گورنر کے فیصلے کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے — فوٹو: ڈان نیوز

پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کے ساتھ تعطل کے سبب مسلسل 2 روز صوبے کا بجٹ پیش کرنے میں ناکامی کے باعث مایوس مسلم لیگ (ن) کے زیر قیادت اتحادی حکومت نے متبادل راستہ اختیار کرلیا، ہموار ماحول کو یقینی بنانے کے لیے صوبائی اسمبلی کا بجٹ اجلاس ایوانِ اقبال میں منعقد کیا جائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز جب پنجاب اسمبلی میں ایوان کی کارروائی شروع نہیں کی جاسکی تو گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے 40 ویں اجلاس کو منسوخ کرتے ہوئے 41 واں اجلاس 2 بجے ایوانِ اقبال میں طلب کیا۔

تاہم گورنر پنجاب کے احکامات کے باوجود بھی اسپیکر صوبائی اسمبلی نے چوہدری پرویز الٰہی نے اعلان کیا کہ 40 واں اجلاس جاری رہے گا۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن جماعتوں کا پنجاب اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں خلل ڈالنے کا منصوبہ

یہ مناظر پہلی بار دیکھے جارہے ہیں کہ دو بجٹ اجلاس ایک ساتھ آج (بدھ) منعقد ہوں گے، ایک اجلاس پنجاب اسمبلی میں ہوگا جس میں اپوزیشن پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ق) جبکہ دوسرا اجلاس ایوانِ اقبال میں ہوگا، جس میں برسرِ اقتدار اتحادی جماعتیں شرکت کریں گی۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک قانون ساز نے ڈان کو بتایا کہ ’جس اجلاس میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے قانون ساز شرکت کریں گے اس کی صدارت ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کریں گے، جو غیر رسمی طور پر حکمران اتحاد کے ساتھ ہیں‘۔

منگل کو چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی کا دوبارہ اجلاس شروع کیا اور ’عارضی‘ وزیر خزانہ سردار اویس لغاری سے بجٹ پیش کرنے کے لیے کہا۔

اس موقع پر اویس لغاری نے بتایا کہ گورنر اجلاس ملتوی کر چکے ہیں، جس کے بعد یہ کارروائی غیر قانونی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عطا اللہ تارڑ کو پنجاب اسمبلی میں غیر اخلاقی حرکت پر شدید تنقید کا سامنا

اسپیکر نے صوبائی وزیر کو کہا کہ گورنر کے فیصلے کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے آپ بجٹ پیش کریں، اویس لغاری کے ہدایت پر عمل درآمد نہ کرنے پر پرویز الٰہی نے اجلاس بدھ ایک بجے تک ملتوی کردیا۔

دوسری جانب قواعد کا حوالہ دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) نے دعویٰ کیا ہے کہ ’گورنر جب اور جہاں بہتر سمجھیں صوبائی اسمبلی کے اجلاس انعقاد اور اس کے مقام کا سمن جاری کر سکتے ہیں اور اجلاس ملتوی بھی کرسکتے ہیں۔

اسپیکر کی جانب سے صوبائی پولیس چیف کے معافی مانگنے اور پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے اراکین پارلیمنٹ اور کارکنوں کے خلاف درج تمام مقدمات واپس لینے کے مطالبات پر منگل کو مسلسل دوسرے روز بھی حکومت اور اسپیکر کے درمیان تعطل برقرار رہا جس نے بجٹ کی کارروائی شروع نہ ہونے دی۔

صوبائی اسمبلی کے حربوں سے مایوس وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے اعلان کیا ہے کہ وہ مسائل سے نمٹنے کے لیے دوسری حکمتِ عمل تیار کریں گے اور الگ اجلاس کا انعقاد کریں گے۔

مزید پڑھیں: پنجاب اب تک کا سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ پیش کرنے کیلئے تیار

وزیر اعلیٰ پنجاب نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’پرویز الٰہی میرے اور عوام کے درمیان تقسیم نہیں پیدا کرسکتے ہیں، آئی جی اور چیف سیکریٹری نے ( 16 اپریل کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے اجلاس میں) اپنا قانونی کردار ادا کیا۔

صوبائی وزیر عطااللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ بجٹ ایوانِ اقبال میں پیش کیا جائےگا، ’ہم پرویز الٰہی کو اجلاس میں مدعو کیا ہے‘۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ قانون سازوں اور عوام کا استحقاق پامال کررہے ہیں، موجودہ اجلاس ملتوی ہوچکا ہے، اسپیکر کی رولنگ جاری ہے، اس اجلاس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

اطلاعات کے مطابق، پنجاب حکومت نے پی ٹی آئی کے قانون سازوں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات واپس لینے پر کچھ لچک دکھائی تھی لیکن ایوان میں اسپیکر اور اپوزیشن کے ایم پی اے کے سامنے آئی جی اور چیف سیکریٹری کی پیشی کے معاملے پر جھکنے کو تیار نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی کا غیر متوقع اجلاس آج طلب

ذرائع نے کہا کہ حمزہ اس معاملے پر پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ہدایات لے رہے ہیں جس نے انہیں کہا ہے کہ وہ اپوزیشن کے مطالبات کو تسلیم نہ کریں۔

منگل کی شب صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر الٰہی نے ایوانِ اقبال کے مجوزہ اجلاس کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے خواتین قانون سازوں سے فحش اشارے کرنے پر عطا تارڑ کے خلاف تحریک استحقاق موصول ہوئی ہے اس معاملے کو بدھ کے اجلاس میں سب سے پہلے اٹھایا جائے گا، عطا تارڑ اسمبلی کے رکن نہیں ہیں تاہم وہ غیر قانونی طور پر اجلاس میں موجود تھے‘۔

پی ٹی آئی کے اسلم اقبال کا کہنا ہے کہ ’ ایوانِ اقبال میں منعقد ہونے والا اجلاس وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے ہوٹل سیشن کی طرح ہوگا، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، اور اسے عدالت میں چیلنج کیا جائے گا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں