پرویز مشرف کیلئے دعاگو ہوں، وہ واپس آنا چاہیں تو حکومت سہولت فراہم کرے، نواز شریف

15 جون 2022
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان کی صحت کے لیے اللّہ تعالی سے دعاگو ہوں—فائل فوٹو:اے ایف پی
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان کی صحت کے لیے اللّہ تعالی سے دعاگو ہوں—فائل فوٹو:اے ایف پی

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے سیاسی مخالف اور سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کی خراب صحت پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی صحت کے لیے اللّہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں، وہ واپس آنا چاہیں تو حکومت سہولت فراہم کرے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ میری پرویز مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی یا عناد نہیں ہے۔

قائد مسلم لیگ (ن) نے مزید کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ اپنے پیاروں کے بارے میں جو صدمے مجھے سہنا پڑے، وہ کسی اور کو بھی سہنا پڑیں۔

یہ بھی پڑھیں: سابق صدر پرویز مشرف کس بیماری میں مبتلا ہیں؟

نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان کی صحت کے لیے اللّہ تعالی سے دعاگو ہوں، وہ واپس آنا چاہیں تو حکومت سہولت فراہم کرے۔

واضح رہے کہ نواز شریف اور پرویز مشرف کے تعلقات 1999 میں اس وقت خراب ہو گئے تھے جب نواز شریف وزیر اعظم تھے اور اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔

پرویز مشرف کے اہل خانہ نے جمعہ کے روز واضح کیا تھا کہ وہ وینٹی لیٹر پر نہیں ہیں لیکن گزشتہ تین ہفتوں سے ہسپتال میں داخل ہیں۔

اہل خانہ نے یہ بیان اس وقت جاری کیا تھا جب ان کے انتقال کی جھوٹی خبریں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر گردش کرنے لگیں تھیں اور کچھ پاکستانی اور بھارتی اشاعتی اداروں نے بھی اسے شائع کیا تھا۔

ریٹائٹرڈ جنرل کی بیماری کی خبریں 2018 میں سامنے آئی تھیں جب آل پاکستان مسلم لیگ نے اعلان کیا تھا کہ وہ امائلائیڈوسس' (Amyloidosis) کی بیماری میں مبتلا ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف کی وطن واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے، خواجہ آصف

امائلائیڈوسز کم پائی جانے والی سنگین صورتحال کا نام ہے جو پورے جسم کے اعضا اور ٹیشوز میں امائلائیڈ نامی پروٹین پروٹین کے پیدا ہونے سے ہوتی ہے، اس پروٹین کے بننے سے اعضا اور ٹیشوز کے لیے مناسب طریقے سے کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

اس سے قبل آج ہی پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے تصدیق کی تھی کہ پرویز مشرف کا خاندان پاکستان واپسی کے حوالے سے فوج سے رابطے میں ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ پرویز مشرف کی فیملی سے رابطہ کیاگیا، پرویز مشرف کی واپسی کا فیصلہ ان کی فیملی اور ان کے ڈاکٹرز نے کرنا ہے کہ وہ ان کو ایسی کنڈیشن میں سفر کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں یا نہیں، اگریہ دونوں چیزیں سامنے آجاتی ہیں تو اس کے بعد ہی کوئی انتظامات کیےجاسکتے ہیں، انسٹی ٹیوشن محسوس کرتاہے کہ جنرل مشرف کو اگر ہم پاکستان لاسکیں کیوں کہ ان کی کنڈیشن ایسی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں ادارے اور اس کی لیڈرشپ کا موقف ہے کہ پرویز مشرف کو واپس آجانا چاہیے۔

ہفتے کے روز وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی پرویز مشرف کی واپسی کے خیال کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں خواجہ آصف نے کہا تھا کہ جنرل مشرف کی خراب صحت کے پیش نظر ان کو وطن واپس آنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ھونا چاہیے، ماضی کے واقعات کواس سلسلے میں مانع نہیں ھونے دینا چاہیے.

وزیر دفاع نے سابق آرمی چیف کے لیے دعائے صحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اللہ ان کو صحت دے اور وہ عمر کے اس حصہ میں وقار کیساتھ اپنا وقت گزار سکیں۔

تبصرے (0) بند ہیں