بیان حلفی کیس، رانا شمیم کو گواہوں کی فہرست جمع کرانے کا آخری موقع

اپ ڈیٹ 07 ستمبر 2022
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو بھی ریڈ لائن کراس کرے گا، اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی — فائل فوٹو: ڈان نیوز
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو بھی ریڈ لائن کراس کرے گا، اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم سے ان کے بیان حلفی میں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے خلاف عائد الزامات کو درست ثابت کرنے کے لیے ان کو گواہوں کی فہرست جمع کرانے کا آخری موقع دے دیا۔

سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔

رانا شمیم کی طرف سے وکیل لطیف آفریدی روسٹرم پر آئے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کی آسانی کے لیے یہ کیس ڈھائی بجے رکھا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پراسیکیوشن نے اپنے گواہوں کے نام جمع کروا دیے ہیں؟

یہ بھی پڑھیں: بیان حلفی کیس: رانا شمیم کو گواہوں کی فہرست جمع کرانے کا حکم

رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے عدالت کو بتایا کہ کیا توہین عدالت کے تمام کیسز اسلام آباد ہی نہ لے آئیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ جو بھی ریڈ لائن کراس کرے گا، اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عوام کو یہ بتایا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے کمپرومائزڈ کیا ہے، اس عدالت پر سے عوام کا اعتماد اٹھانے کی کوشش کی گئی۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے پر یہ عدالت کسی بھی حد تک جائے گی، توہین عدالت کون کرتا ہے یہ بات بڑی اہم ہوتی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سابق چیف جج نے ایک انگریز سولیسٹر سے بیان حلفی لکھوایا، یہ بیان حلفی بہت اہمیت رکھتا ہے۔

مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس: رانا شمیم نے فردِ جرم کو چیلنج کردیا

انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگر بیان حلفی سچا ہے تو رانا شمیم اسے ثابت کریں، اگر یہ سچا نہیں ہے تو یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ رانا شمیم اپنا بیان حلفی ثابت کریں ورنہ غیر مشروط معافی مانگیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ رانا شمیم اگر کہیں کہ ان سے سمجھنے میں غلطی ہوگئی تو یہ عدالت مان سکتی ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے توہین عدالت کیس کی کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

چیف جسٹس نے رانا شمیم کو ہدایت دی کہ اپنے گواہوں کی فہرست عدالت میں پیش کریں۔

وکیل لطیف آفریدی نے عدالت کو کہا کہ رانا شمیم بتا چکے ہیں کہ انہوں نے بیان حلفی دیا تھا لیکن اس کے متن کی تشہیر نہیں کی۔

رانا شمیم کے وکیل نے دلائل دیے کہ عدالت نے متن کی تشہیر کرنے والوں کو کیس سے الگ کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کے خلاف درخواست دائر

لطیف آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ میرا گناہ تو یہ ہے کہ بند کمرے میں قتل کا منصوبہ بنایا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس عدالت کو غرض نہیں کہ بیان حلفی کس طرح لیک ہوگیا، عدالت اُس کو توہین عدالت سمجھتی ہی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بیان حلفی کا متن توہین آمیز ہے اور وہ پبلک ہو چکا ہے، رانا شمیم اپنے بیان حلفی کو تسلیم کرتے ہیں، انہیں اس کو ثابت کرنا ہوگا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ عدالت رانا شمیم کو شفاف ٹرائل کا مکمل موقع دے گی، اس عدالت پر ایک ریٹائرڈ چیف جج نے بہت بڑا دھبہ لگایا ہے اب اس کو کلیئر ہونا چاہیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر رانا شمیم اپنا بیان حلفی تسلیم نہ کرتے تو عدالت ان کے خلاف کیس ختم کر دیتی، پھر یہ عدالت باقی لوگوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی آگے بڑھاتی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رانا شمیم نے اس عدالت کے بارے میں اتنی بڑی بات کی تو اس کو واضح ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر رانا شمیم بیان حلفی تسلیم کرتے ہیں تو ان کو کیا ہچکچاہٹ ہے؟

وکیل لطیف آفریدی نے مؤقف اختیار کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے پوچھا گیا تھا کہ کیا آپ کو عدالت پر اعتماد ہے یا نہیں، انہوں نے اعتماد کا اظہار کیا تھا لیکن بعد میں انہیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔

لطیف آفریدی نے مزید کہا کہ اب یہاں وہ صورتحال بالکل نہیں ہے، ہمیں عدالت پر اعتماد ہے، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے، آپ کا مؤکل ہچکچا رہا ہے کہ وہ بیان حلفی ثابت نہیں کر سکے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک چیف جج اتنا بڑا بیان حلفی دے گا تو ہر صحافی اس کو شائع کرنا چاہے گا، رانا شمیم کو شفاف ٹرائل ملے گا، وہ جس کو بطور گواہ بلانا چاہیں، بلا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس: ملزمان پر 20 جنوری کو فرد جرم عائد کی جائے گی، اسلام آباد ہائیکورٹ

انہوں نے کہا کہ عدالت اس بیان حلفی کی سچائی تک ضرور پہنچے گی، اگر رانا شمیم نے بیان حلفی ثابت کر دیا تو کورٹ توہین عدالت کی کارروائی ختم کر دے گی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر آپ تکنیکی وجوہات کی بنا پر کیس لٹکانا چاہتے ہیں تو یہ درست نہیں، جس پر رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی کا جواب دیا کہ ہمیں تاخیر کر کے کیا فائدہ ہوگا؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ رانا شمیم نے جس عدالت سے متعلق اتنی بڑی بات کہی، وہ عدالت انہیں شفاف ٹرائل کا موقع دے رہی ہے، یہ عدالت آپ کو موقع دے رہی ہے کہ جو بات انہوں نے سنی اگر درست ہے تو اسے ثابت کریں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جہاں سے توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوئی وہ ریڈلائن ہے، رانا شمیم نے جب بیان حلفی تسلیم کیا تو اس کا لیک ہونا غیر متعلقہ ہوگیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس عدالت کے وقار اور عوام کا اعتماد اب اس بیان حلفی پر منحصر ہے، اگر رانا شمیم بیان حلفی ثابت کر دیں تو یہ عدالت اس کارروائی کو آگے بڑھائے گی، پھر وہ کارروائی رانا شمیم کے خلاف نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ رانا شمیم کو مکمل شفاف ٹرائل کا موقع دیا جائے گا تاکہ اس عدالت پر ذرا بھی دھبہ نہ رہے، یہ بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بیانِ حلفی کا مقصد 'ریکارڈ کو درست رکھنا' تھا، رانا شمیم کا دعویٰ

عدالت کو بتایا گیا کہ رانا شمیم کے بیان حلفی کے جواب میں بھی کسی نے بیان حلفی نہیں دیا، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگر آپ کا یہ مؤقف ہے تو یہ معاملہ اور بھی سنجیدہ ہوجائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر جوابی بیان حلفی نہیں آیا تو اس کا مطلب ہے کہ بیان حلفی درست ہو گیا؟

عدالت نے کہا کہ رانا شمیم کو گواہوں کی فہرست جمع کرانے کا آخری موقع دیا جاتا ہے، گواہوں کی فہرست جمع نہیں کراتے تو عدالت سمجھے گی کہ رانا شمیم بیان حلفی ثابت نہیں کر سکتے، عدالت پھر یہ سمجھے گی کہ رانا شمیم کے بیان حلفی کا متن درست نہیں ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 12 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت میں اہم پیش رفت سامنے آئی۔

پراسیکیوشن نے گواہوں کی فہرست عدالت میں پیش کردی، جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا نام شامل نہیں، پراسیکیوشن نے صرف چار گواہوں کی فہرست جمع کروائی۔

پراسیکیوشن کے گواہان میں ڈپٹی کمشنر، رجسٹرار اور ایڈیشنل رجسٹرار کے نام شامل ہیں جبکہ پراسیکیوشن کی فہرست میں چوتھے گواہ برطانوی سولیسٹر ہیں۔

قبل ازیں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ توہین عدالت کیس کی سماعت آج ڈھائی بجے ہوگی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے آج ڈھائی بجے رانا شمیم کیس میں بھی پیش ہونا ہے، آپ نے گواہوں کی فہرست بھی دینی ہے، رانا شمیم نے بھی دینی ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چوہدری کے کیس میں کہا گیا تھا کہ پہلے صرف پراسیکیوشن گواہوں کی لسٹ دے، اس کیس میں ویسے پراسیکیوشن کوئی نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: رانا شمیم و دیگر کے خلاف فرد جرم کی کارروائی ملتوی، فریقین کو 'سوچنے کی مہلت‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اس کیس میں ایک بیان حلفی ریکارڈ پر موجود ہے، ذمہ داری صرف رانا شمیم پر ہے، وہ بیان حلفی کو اب ثابت کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے تاکہ سچ سامنے آئے۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ 15 نومبر 2021 کو انگریزی روزنامے ’دی نیوز‘ میں شائع ہونے والی صحافی انصار عباسی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم نے ایک مصدقہ حلف نامے میں کہا تھا کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو ہدایت دی تھی کہ سال 2018 کے انتخابات سے قبل کسی قیمت پر نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہیں ہونی چاہیے۔

مبینہ حلف نامے میں رانا شمیم نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان 2018 میں چھٹیاں گزارنے گلگت بلتستان آئے تھے اور ایک موقع پر وہ فون پر اپنے رجسٹرار سے بات کرتے ’بہت پریشان‘ دکھائی دیے اور رجسٹرار سے ہائی کورٹ کے جج سے رابطہ کرانے کا کہا۔

رانا شمیم نے کہا کہ ثاقب نثار کا بالآخر جج سے رابطہ ہوگیا اور انہوں نے جج کو بتایا کہ نواز شریف اور مریم نواز انتخابات کے انعقاد تک لازمی طور پر جیل میں رہنے چاہیئں، جب دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو ثاقب نثار پرسکون ہو گئے اور چائے کا ایک اور کپ طلب کیا۔

دستاویز کے مطابق اس موقع پر رانا شمیم نے ثاقب نثار کو بتایا نواز شریف کو جان بوجھ کر پھنسایا گیا ہے، جس پر سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ’رانا صاحب، پنجاب کی کیمسٹری گلگت بلتستان سے مختلف ہے‘۔

تاہم ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ثاقب نثار نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کی اور رپورٹ کو ’خود ساختہ کہانی‘ قرار دیا تھا۔

ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ’اس وقت انہوں نے اپنی مدت میں توسیع کے متعلق شکوہ کیا جبکہ ان کی ان دعووں کے پیچھے کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے‘۔

اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات منظرِ عام پر آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے رپورٹ لکھنے والے صحافی انصار عباسی، ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری اور رانا شمیم کو توہینِ عدالت آرڈیننس کے تحت نوٹس جاری کر کے 16 نومبر کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

بعدازاں رپورٹ کی اشاعت کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے معاملے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے معاملے کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا اور سوال کیا تھا کہ اگر نواز شریف جیل جا سکتے ہیں تو ثاقب نثار کیوں نہیں جاسکتے۔

تبصرے (0) بند ہیں