بیان حلفی کیس: رانا شمیم کو گواہوں کی فہرست جمع کرانے کا حکم

06 ستمبر 2022
سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان  نے کہا کہ وہ غور کریں گے کہ کون گواہی دینے کے لیے آسکتا ہے—فائل فوٹو : ڈان نیوز
سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان نے کہا کہ وہ غور کریں گے کہ کون گواہی دینے کے لیے آسکتا ہے—فائل فوٹو : ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم سے ان کے بیان حلفی میں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے خلاف عائد الزامات کو درست ثابت کرنے کے لیے گواہوں کی فہرست طلب کر لی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان کے اس حلف نامے کو قومی انگریزی اخبار میں شائع کرنے سے متعلق کیس کی سماعت دوبارہ شروع کی جس میں جسٹس ثاقب نثار پر ایون فیلڈ پراپرٹیز کیس میں سزا سنائے جانے کے بعد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی ضمانت پر رہائی میں تاخیر کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔

کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیس میں شواہد فراہم کرنے کی ذمہ داری رانا شمیم پر عائد ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے سابق چیف جسٹس اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کے خلاف الزامات عائد کیے اور بیان حلفی انگریزی اخبار میں شائع ہو چکا۔

یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: رانا شمیم نے فردِ جرم کو چیلنج کردیا

سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان نے حلف نامے کی اشاعت پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس پر صرف افسوس کر سکتے ہیں کہ کاش یہ شائع نہ ہوتا، تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ صحافی کو حلف نامہ انہوں نے فراہم نہیں کیا اور وہ اپنی وصیت میں لکھ چکے ہیں کہ اس کا انکشاف ان کی وفات کے بعد کیا جائے۔

اپنے دفاع میں بیان دینے والے گواہوں کی فہرست پیش کرنے کی ہدایت کے جواب میں رانا شمیم نے عدالت سے وقت مانگتے ہوئے کہا کہ وہ اس پر غور کریں گے کہ کون گواہی دینے کے لیے آسکتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو ضرورت محسوس ہوئی تو گواہوں کو طلب کیا جائے گا، بعد ازاں کیس کی مزید سماعت 7 ستمبر (کل) تک ملتوی کر دی گئی۔

مزید پڑھیں: بیان حلفی کیس: گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم پر فرد جرم عائد

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے رانا شمیم پر 20 جنوری کو توہین عدالت کی فرد جرم عائد کی تھی۔

خیال رہے کہ رانا محمد شمیم نے ایک مصدقہ حلف نامے میں کہا تھا کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو ہدایت دی تھی کہ سال 2018 کے انتخابات سے قبل کسی قیمت پر نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہیں ہونی چاہیے۔

عدالت کی جانب سے جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ان میں گھناؤنے الزامات پر مبنی یہ حلف نامہ اور اس کے لیک ہونے کے بعد اس کے مواد کو شائع کرنے والے نوٹری پبلک یا صحافی کے خلاف کوئی قانونی سہارا نہ لینا شامل ہے۔

عدالت نے سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان پر 3 سال خاموشی اختیار کیے رکھنے کا بھی الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ حلف نامہ عدالت کے وقار کو مجروح کرنے، نظام انصاف کو بے عزت کرنے اور انصاف کا رخ موڑنے کی کوشش تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں