بچوں اور عورتوں سمیت پورے خاندان کی چار دیواری ایک چارپائی کی صورت میں سمٹ گئی ہے۔ اس چارپائی کو ناؤ بنا کر وہ سر سے اونچے سیلاب کے پانی سے باہر نکلے ہیں اور سڑک کنارے کھلے آسمان تلے آ بیٹھے ہیں۔

تلہار، ٹنڈو باگو، پنگریو روڈ، سمن سرکار، شادی لارج، ملکانی شریف ہر جگہ تباہی کے مناظر یکساں ہیں۔ بارش متاثرین کہیں جھونپڑیاں اور کہیں خیمے لگائے بیٹھے ہیں۔ بارشوں کا سلسلہ اگرچہ ختم ہوئے ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے مگر سڑک کنارے ہزاروں لوگ تاحال امداد کی آس لگائے ہوئے ہیں اور منتظر ہیں کہ کب ان کے علاقوں سے پانی نکالا جائے۔

بارش متاثرین کی بحالی کا کام شروع ہوا ہے لیکن حکومتی سرگرمیوں کا مرکز شہری علاقے ہیں جہاں لوگوں کو امدادی سامان اور وطن کارڈ بھی فراہم کیے جارہے ہیں، پانی کی نکاسی ہورہی ہے اور اس کے ساتھ ہی سیاسی رہنماؤں کے رنگین قد آدم بل بورڈ بھی اتنی تعداد میں آویزاں ہوگئے ہیں کہ گمان ہوتا ہے کسی نئی فلم یا ڈرامے کی تشہیری مہم چلائی جارہی ہے۔

یہ ذکر ہے سندھ میں آنے والے 2011ء کے سیلاب کا جب بارشوں نے تباہی مچادی تھی۔ بدین، سانگھڑ، میرپورخاص، مٹھی اور نواب شاہ میں 500 سے 700 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔ کہا جارہا تھا کہ یہاں گزشتہ 100 سالہ بارشوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ بارشوں کا سلسلہ 10 اگست سے شروع ہوکر مختلف اسپیلز میں 12 ستمبر تک جاری رہا۔ ہم نے صحافیوں کی ایک ٹیم کے ساتھ اکتوبر میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا تھا۔ اس موقعے پر جو مناظر دیکھے وہی آج بھی ٹی وی اسکرینوں پر چھائے ہوئے ہیں۔

لوگ چارپائی کو ناؤ بنا کر سیلاب کے پانی سے باہر نکلے ہیں اور سڑک کنارے کھلے آسمان تلے آ بیٹھے— تصویر: اے ایف پی
لوگ چارپائی کو ناؤ بنا کر سیلاب کے پانی سے باہر نکلے ہیں اور سڑک کنارے کھلے آسمان تلے آ بیٹھے— تصویر: اے ایف پی

وطن کارڈ کا چرچا

متاثرین سے گفتگو کے لیے ہم جہاں بھی جاتے ہمارے گِرد ہجوم اکٹھا ہوجاتا۔ عورتیں، مرد سب اپنے شناختی کارڈ ہمیں دکھانے لگتے۔ وہ ہمیں حکومت کے نمائندے سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ اپنے شناختی کارڈ دکھا کر امداد کے لیے رجسٹر ہوجائیں۔ متاثرین کے لیے شناختی کارڈ قسمت کی کنجی تھی۔ اسی کے ذریعے انہیں کھانا، رہائش، نقد امداد اور وطن کارڈ (2010ء کے سیلاب کے موقع پر جاری کیے گئے تھے) ملنے کی امید تھی۔

پانی کا رُخ غریب آبادیوں کی طرف

ڈھورونارو میں واقع نالے کا پانی تاحال کناروں سے باہر تھا۔ زیرِ آب آنے والے اطراف کے سیکڑوں گھروں کے مکین سڑک پر ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ ‘نالے پر اگر کٹ لگا دیا جائے تو پانی نکل جائے گا، ہم اپنے بال بچوں کے ساتھ گھروں کو واپس ہوجائیں گے مگر علاقے کی ایک سیاسی شخصیت کٹ نہیں لگانے دے رہی کیونکہ پانی اس کی زمینوں کی طرف جائے گا۔ یہی شکایت ہمیں کئی جگہ سننے کو ملی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ بااثر افراد کی زمینوں کو بچانے کے لیے نہروں کے پشتے توڑ کر پانی کا رخ دیہات کی طرف موڑ دیا گیا تھا’۔

پانی کی نکاسی سیاسی معاملہ

ہمیں بتایا گیا تھا کہ صوبائی حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ سب سے پہلے اور جلد از جلد صدر آصف علی زرداری کے شہر نواب شاہ سے پانی کی نکاسی کی جائے۔ مشینوں کے استعمال سے نواب شاہ کے بیشتر علاقوں سے پانی نکالا جاچکا تھا جبکہ بدین کے جن علاقوں سے پانی کی نکاسی ہورہی تھی اس سے متعلق مقامی دکاندار بخشل نے ہمیں بتایا تھا کہ ‘انچوں کے حساب سے پانی کی نکاسی ہورہی ہے۔ 15 روز پہلے 10 مشینیں لگائی گئی تھیں جو اس وقت تک صرف 10 انچ پانی نکال سکی تھیں۔ امداد زیادہ وصول کرنے کا لالچ بھی انتظامیہ کی سست رفتاری سے کام کرنے کا سبب ہے۔ پانی کی بروقت نکاسی نہ ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں گندم کی فصل بھی کاشت نہیں ہوسکے گی’۔

پانی کی نکاسی کا عمل سست روی سے جاری تھا: اے ایف پی
پانی کی نکاسی کا عمل سست روی سے جاری تھا: اے ایف پی

ووٹ ‘بی بی’ کا

بدین کے شہروں ملکانی شریف، شادی لارج اور پنگریو میں ہر جگہ گلیوں اور گھروں میں 2 سے 3 فٹ پانی موجود تھا۔ یہاں مکین چھتوں پر چارپائیاں ڈالے بیٹھے تھے اور سیلاب گزرنے کے ایک ماہ بعد بھی امداد کے انتظار میں تھے۔ ان میں ایک شہناز بھی تھیں جن کی 6 بکریاں پانی کی نذر ہوگئیں تھیں، شوہر کسی کے کھیتوں میں کام کرتا تھا اور جب تک علاقے میں پانی کھڑا تھا، وہاں کام ہونا مشکل تھا۔ ان کے 5 بچے تھے۔ شہناز دہائی دے رہی تھی کہ ‘خدارا پانی نکالا جائے، ہمارے بچے فاقوں سے مررہے ہیں۔’

وہاں 70 سالہ پیر بخش چارپائی پر بیمار پڑے تھے، انہیں ملیریا ہوگیا تھا، اور وہ اپنی 5 بہوؤں کے سرپرست تھے جن کے شوہر امداد اور کھانے کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے۔

یہیں کسمپرسی کا شکار ایک اور خاندان بھی اپنے گھر کی چھت پر موجود تھا۔ ان میں موجود ایک نوجوان پیرل غصے سے آگ بگولا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ‘ہمیں ہفتوں اسی حال میں گزر گئے، کوئی پوچھنے نہیں آیا، گھر والوں کے لیے کھانا لینے جاتا ہوں تو دھکے کھا کر آجاتا ہوں، ہمیں تو کوئی ہیلی کاپٹر چھت پر سامان دینے نہیں آیا’۔

میں نے اس ناراض نوجوان سے پوچھا کہ ‘یہ بتائیں پچھلے الیکشن میں آپ نے ووٹ کسے دیا تھا؟’ پیرل نے کہا ‘پیپلز پارٹی کو’۔ میں نے کہا ان کا کوئی نمائندہ آپ تک آیا؟ اس نے جواب دیا ‘نہیں کسی نے نہیں پوچھا’۔ میں نے پیرل سے پھر یہ سوال کیا کہ ‘آئندہ الیکشن میں آپ ووٹ کسے دو گے؟’ پیرل نے اپنی شہادت کی انگلی اٹھائی اور بازو ہوا میں لہراتے ہوئے، قطعیت کے ساتھ جواب دیا کہ ‘ووٹ بی بی کا’۔ پیرل کے اردگرد کھڑے تمام افراد نے تائید کی کہ ووٹ پیپلز پارٹی کے سوا کسی اور کو نہیں دیں گے۔

سندھ کے ان علاقوں میں جہاں عوام سر سے اونچے پانی میں ڈوب رہے تھے، ان کے پیروں تلے زمین نہیں تھی، مال اسباب سب برباد ہوچکا تھا، وہ اپنے ووٹ کا سرمایہ پیپلز پارٹی کی امانت سمجھتے تھے۔ وہی پارٹی جو سندھ کے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو کی تھی، بھٹو کے بعد اب ان کے ووٹ کی حقدار بے نظیر بھٹو کی پارٹی تھی۔


سندھ میں جب بھی انتخابی نتائج آتے ہیں تو مجھے 2011ء کے سیلاب سے تباہ حال اس نوجوان اور اس کے ساتھیوں کے نعرے یاد آجاتے ہیں۔ دیہی سندھ کی انتخابی سیاست میں پیپلز پارٹی کی ہمیشہ کامیابی میں اگرچہ دھونس دھمکی سمیت وہ تمام حربے، ہتھکنڈے اور داؤ پیچ آزمائے جاتے ہیں جو ہر بالادست پارٹی آزماتی ہے، تاہم اس امر میں کوئی شک نہیں کہ دیہی سندھ کے لوگ بھٹو خاندان سے والہانہ محبت رکھتے ہیں۔ مگر کیا پیپلز پارٹی نے ان وفادار ووٹروں کی عقیدت کا خراج ادا کیا؟ اس سوال کا جواب 2010ء کی صورتحال کی 2022ء کی صورتحال سے یکسانیت میں نظر آجاتا ہے۔

ڈوبتے عوام کے لیے بھی ووٹ کی حقدار بے نظیر بھٹو کی جماعت تھی— تصویر: ٹوئٹر
ڈوبتے عوام کے لیے بھی ووٹ کی حقدار بے نظیر بھٹو کی جماعت تھی— تصویر: ٹوئٹر

اس بار ماضی کی نسبت زیادہ تباہی ہوئی ہے

2010ء کے سیلاب کو ‘سپر فلڈ’ کہا گیا، مگر اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ 2022ء میں تباہی کا پھیلاؤ 2010ء کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ یہاں اہم ترین بات یہ کہ ان گزشتہ 12 سالوں میں بیرونی امداد بھی ملی تھی، مگر سندھ، جو نصف صدی سے پیپلز پارٹی کی طاقت کا سرچشمہ ہے، جہاں پارٹی کے وفادار ووٹر بستے ہیں وہاں بحالی اور امدادی سرگرمیوں میں نہ لوگوں کے پانی میں بہہ جانے والے مٹی کے گھر پکے ہوئے، نہ کہیں بند بنے، نہ بیراجوں کی مرمت ہوئی اور نہ ہی آئندہ آنے والے سیلاب کی پیش بندی۔

حالیہ سیلاب سے متعلق وزیرِاعلیٰ مراد علی شاہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ محکمہ موسمیات نے پیشگی خبردار کردیا تھا۔ مہینوں پہلے سے ملنے والی طوفانی بارشوں اور سیلاب کی اطلاعات کے باوجود ان علاقوں سے بھی لوگوں کو نہ نکالا گیا جہاں بند کے پُشتے توڑ کر پانی چھوڑ دینے کی روایت رہی ہے۔

صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے تجاویز دی گئی تھیں کہ محکمہ آبپاشی بند کی مرمت، حساس مقامات کی دیکھ بحال، گشت اور روشنی کا انتظام کرے نیز وائرلیس رابطے کے انتطامات بھی کیے جائیں۔

محکمہ آبپاشی کو تجویز دی گئی کہ دریا کے اندر موجود تمام غیر قانونی بند ہٹائے جائیں تاکہ پانی کی روانی جاری رہے، بند کے اندر رہنے والے لوگوں کا انخلا کیا جائے اور یہ کوشش کی جائے کہ وہ کچے میں صرف کھیتی باڑی کیا کریں۔ محکمہ صحت کو میڈیکل کیمپوں کا انتظام کرنے، دواؤں، پانی صاف کرنے والی گولیوں اور فرسٹ ایڈ کٹس کی موجودگی یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی گئی۔

وزیرِاعلیٰ سندھ نے خود تسلیم کیا کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے پیشگی اطلاع دی گئی تھی
وزیرِاعلیٰ سندھ نے خود تسلیم کیا کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے پیشگی اطلاع دی گئی تھی

زمینی حقائق دیکھیں تو نہ صرف پیش بندی کے اقدامات ندارد رہے بلکہ آفت کے دوران منصوبہ بندی اور انتظام بھی انتہائی ناقص رہے۔ یہاں تک کہ متاثرین کو کھانا دینے کا مرحلہ بھی انتہائی بدانتظامی کا شکار نظر آتا ہے جس میں کم از کم یہ بہتری لائی جاسکتی تھی کہ سب متاثرین کو ان کی جگہوں پر بٹھا کر کھانا دیا جائے۔ لاڑکانہ سمیت سیلاب سے متاثرہ کئی شہروں میں ہفتہ بھر سے زائد بجلی غائب رہی جس کے سبب پانی نکالنے کی مشینیں نہیں چل پائیں اور انہیں مہنگے ڈیزل سے چلانا بھی ممکن نہیں تھا۔

2010ء کے مقابلے میں آج سوشل میڈیا کے عروج کے اس دور میں سندھ کے عوام سراپا احتجاج بنے اور سرکاری و سیاسی عہدیداروں کا گھیراؤ کرتے نظر آتے ہیں۔

ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ تباہی بہت بڑی ہے اور اس سے نمٹنا آسان نہیں ہے، مگر پاک فوج سمیت سماجی تنظیموں اور رضاکاروں کی بڑی تعداد حکومت کا ہاتھ بٹانے نکلی ہوئی ہے۔ گزشتہ سیلاب سے نمٹنے کا تجربہ بھی ہے تو ان مددگار عوامل کو بروئے کار لاتے ہوئے متاثرین کو بہتر انداز میں ریلیف دیا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں ٹینٹ بنانے کی صنعت سے وابستہ ایک صنعتکار، جو ٹینٹ ایسوسی ایشن کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں، انہوں نے ہمیں بتایا کہ ‘2010ء کے سیلاب کے موقع پر صوبائی حکومت نے ایسوسی ایشن کا نمائندہ اجلاس بلایا اور اپنی مجموعی ضرورت بتادی۔ ایسوسی ایشن نے خیمے فراہم کرنے کا کام آپس میں بانٹ کر ہدف حاصل کرلیا تھا لیکن اس مرتبہ یہ بھی نہیں کیا گیا’۔

2010ء کے سیلاب کے موقع پر پاکستان نے نقصان کا تخمینہ 12 ارب ڈالر لگایا تھا اور اقوامِ متحدہ میں ریکارڈ 2 ارب ڈالر امداد کی اپیل کی گئی تھی جس کا 38 فیصد فوری وصول ہوگیا تھا۔ موجودہ آفت کی تباہ کاریاں ابھی جاری ہیں، نقصان کا حتمی تخمینہ نہیں لگایا گیا لیکن ممکن ہے کہ بحالی کے لیے کھربوں روپے کی ضرورت پڑے۔

پاک فوج اور سماجی تنظیمیں حکومت کا ہاتھ بٹانے نکلی ہوئی ہیں— تصویر: فیس بک
پاک فوج اور سماجی تنظیمیں حکومت کا ہاتھ بٹانے نکلی ہوئی ہیں— تصویر: فیس بک

اقوامِ متحدہ کے رکن اور پاکستان کے دوست ممالک کی جانب سے امداد کی فراہمی تو شروع ہوگئی ہے مگر اس کے ساتھ ہی ‘امدادی سیاست’ بھی نظر آنے لگی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ اور سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے ٹیلی تھون کے ذریعے 5 ارب روپے اکٹھے ہونے کا دعویٰ کیا گیا اور خوشی اس طرح منائی گئی جیسے رقم یہاں پہنچ گئی ہو۔

جواب میں پیپلز پارٹی کا دعویٰ سامنے آگیا کہ بلاول نے ایک گھنٹے میں اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک سے تقریباً ایک کھرب 30 ارب روپے جمع کرلیے ہیں۔ دنیا یہ رقم پاکستان کی آفت کو دیکھتے ہوئے دے رہی ہے نہ کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین کو۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز سیلاب زدگان سے ملنے جہاں بھی جاتی ہیں انہیں نواز شریف کا خصوصی پیغام پہنچاتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی تشہیر کریں لیکن اس قومی افتاد کے دوران حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ جیسی سیاست سے گریز کرنا چاہیے۔

حرفِ آخر کے طور پر یہ عرض کریں گے کہ خدارا اس قدرتی آفت کو قوم کے لیے تعمیرِ نو کا ایک موقع بنا لیں۔ دنیا ہماری مالی امداد کو لپک رہی ہے، ان اربوں، کھربوں کو کرپشن کی نذر ہونے سے بچالیں۔ امدادی رقوم کی تقسیم اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے لیے صاف شفاف نظام تشکیل دیں، جس میں سیاسی جماعتوں، فوج، عدلیہ اور سول سوسائٹی کی نمائندگی ہو، متاثرین کے لیے خرچ کیے جانے والے فنڈ کو ‘پرائم منسٹر’ یا ‘بے نظیر سپورٹ’ کے بجائے صرف ‘انٹرنیشنل فلڈ ریلیف 2022’ قسم کا کوئی نام دیا جائے تاکہ یہ سیاسی تشہیر کے بجائے تاریخ میں بین الاقوامی برادری کی جانب سے پاکستان کی قدرتی آفت کی مد میں کی گئی مدد کے طور پر یاد رکھا جائے۔

یہ بھی واضح ہو کہ ہمیں جو بین الاقوامی امداد حاصل ہوتی ہے اس پر دنیا نظر بھی رکھتی ہے۔ حال ہی میں بی بی سی کے ایک پروگرام میں سماجی حقوق کی ایک پاکستانی نژاد ایکٹوسٹ سے یہ سوال بھی پوچھا گیا تھا کہ کیا امداد حکومتِ پاکستان کے ذریعے تقسیم ہو یا این جی اوز کو دی جائے۔

سیلاب متاثرین میں اس وقت سندھ سب سے زیادہ ہلاکتوں کا شکار ہوا ہے جبکہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے کئی علاقوں میں جان و مال اور انفرااسٹرکچر خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے ہیں۔ امدادی رقوم کی ایک ایک پائی متاثرین کی بحالی اور پاکستان کی حقیقی تعمیرِ نو پر خرچ ہونی چاہیے۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کو اس کی پہرہ داری کرنی چاہیے، اسی طرح اقوامِ عالم میں ہماری ساکھ بھی قائم ہوگی اور ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل پر کاسہ اٹھائے دنیا کی طرف دیکھنے کے بجائے ہم میں خود ان سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں