توہین عدالت کیس: رانا شمیم نے فردِ جرم کو چیلنج کردیا

اپ ڈیٹ 01 مارچ 2022
عدالت نے کیس میں نامزد دو صحافیوں اور میر شکیل الرحمٰن کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ مؤخر کردیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز
عدالت نے کیس میں نامزد دو صحافیوں اور میر شکیل الرحمٰن کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ مؤخر کردیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز

گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کے شریف خاندان کے کیس پر اثر انداز ہونے کی مبینہ کوشش سے متعلق حلف نامے کے کیس میں ان پر عائد کردہ توہین عدالت سے متعلق فرد جرم کو چیلنج کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت کی جانب سے ’دی نیوز‘ میں شائع کردہ حلف نامے کی خبر پر نوٹس لیتے ہوئے ڈاکٹر رانا شمیم، جنگ گروپ کے ایڈیٹر اینڈ چیف میر شکیل الرحمٰن، انویسٹی گیشن ایڈیٹر انصار عباسی اور ریذیڈینٹ ایڈیٹر عامر غوری کے خلاف کارروائی شروع کی گئی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 20 جنوری کو حلف نامے کے کیس میں رانا شمیم پر فرد جرم عائد کی تھی۔ مذکورہ حلف نامے میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے ہائی کورٹ کے جج کو ہدایات جاری کی تھیں کہ 2018 کے عام انتخابات تک سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو ایون فیلڈ ریفرنس میں قید رکھا جائے۔

مزید پڑھیں: رانا شمیم کے بیانِ حلفی کی تحقیقات کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ

تاہم عدالت نے کیس میں نامزد دو صحافیوں اور میر شکیل الرحمٰن کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ مؤخر کردیا تھا۔

رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کردہ اپیل میں استدعا کی گئی ہے کہ ’سماعت کے دوران سنگل بینچ کے معزز جج نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ یہ کارروائیاں توہین عدالت کی نہیں بلکہ اسے انکوائری سمجھا جائے‘۔

تاہم حکم جاری کرنے کے بعد عدالت نے درخواست گزار کے خلاف کارروائی بطور انکوائری آگے بڑھانے کے بجائے فرد جرم عائد کردی۔

اپیل میں شریک مجرم کے خلاف الزامات مؤخر کرنے کو فوجداری قوانین کے خلاف قرار دیتے ہوئےکہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے واضح طور پر کسی بھی فرد کو حلف نامہ دینے کے حوالے سے انکار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: رانا شمیم نے سربمہر بیانِ حلفی عدالت میں جمع کرا دیا، وکیل

انہوں نے کہا کہ ریکارڈ میں ایسا کوئی ثبوت نہیں جس سے اخبار میں حلف نامہ سے متعلق خبر شائع ہونے یا اس کے لیک ہونے میں رانا شمیم کی شمولیت کی تصدیق ہوسکے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سماعت کے دوران ان پر علیحدہ فرد جرم عائد کرنا اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا آئین کے آرٹیکل 10 اے خلاف ہے۔

اپیل میں اس سے قبل جاری کیے گئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کا حوالہ دیا گیا جس میں عدالت نے میڈیا کے مؤقف کا حوالہ دیا تھا کہ’ حلف نامے کی صورت میں دستاویزات شائع کرنا عوامی مفاد میں میڈیا کا فرض ہے چاہے اس کا مواد غلط ہی کیوں نہ ہو‘۔

اپیل میں کہا گیا کہ عدالت نے مشاہدہ کیا تھا کہ ’اگر یہ دلیل قبول کرلی جائے تو فریقین سمیت تمام ملزمان انصاف پر بالواسطہ اثر انداز ہوں گے۔

اپیل میں مزید کہا تھا کہ نیوز رپورٹ میں حلف نامے کے مندرجات شائع کیے گئے ہیں اگر یہ مندرجات شائع نہیں کیے جاتے تو مجھ پر توہین کا کوئی الزام عائد نہیں لگتا۔

مزید پڑھیں: رانا شمیم اصل حلف نامہ پاکستان ہائی کمیشن لندن کے حوالے کریں، اٹارنی جنرل کا خط

مزید کہا گیا کہ بغیر اشاعت کے حلف نامہ لکھنا محض اپیل کنندہ کے خیالات کے مترادف ہے،کسی کو محض چند خیالات رکھنے پر سزا نہیں دی جا سکتی۔

اپیل کے مطابق درخواست گزار پر لگائےگئے الزامات مفروضوں پر مبنی ہیں، معزز جج نے فرض کرلیا کہ ہےکہ درخواست گزار نے حلف نامہ لیک کیا، پبلش کرنے کے لیے بانٹا، انہوں نے اس بات کو نظر انداز کیا کہ خبر کی اشاعت کے لیے درخواست گزار کی نیت میں کوئی کینہ پروری نہیں تھی۔

رانا شمیم نے عدالت سے استدعاکی ہے کہ فرد جرم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی روکی جائے۔

سابق جج نے جنوری میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو پیش کردہ بیان میں کہا تھا کہ ان کے خاندان میں ان کی اہلیہ سمیت 5 افراد کی یکے بعد دیگرے اموات ہوئیں جس کے بعد انہوں نے ریکارڈ درست رکھنے کے لیے حلف نامہ لکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: رانا شمیم بیان حلفی: ’نئے انکشافات نے شریف خاندان کو پھر سیسیلین مافیا ثابت کردیا‘

انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے 10 نومبر 2021 کو حلف نامے کے مواد کے حوالے سے کسی کو آگاہ کیے بغیر اسے سیل لفافے میں کرکے اپنے نواسے کے حوالے کیا جو اس وقت انگلینڈ میں زیر تعلیم ہے۔

وضاحت دیتے ہوئے رانا شمیم کا کہنا تھا کہ بعد ازاں وہ امریکا میں منعقدہ ایک سمپوزیم میں گئے تھے جہاں وہ بطور مہمان خصوصی مدعو تھے، انہیں 17 نومبر 2021 کو واپس آنا تھا تاہم انہیں اپنے بھائی کے انتقال کی خبر موصول ہوئی اور وہ 7 نومبر کو پاکستان کے لیے روانہ ہوگئے۔

انہوں نے کہا تھا کہ انہیں پاکستان تک براہِ راست پرواز نہیں ملی تھی جس کی وجہ سے انہیں8 نومبر کو لندن جانا پڑا جہاں سے وہ 10 نومبر کو کراچی براستہ دبئی کی پرواز میں سوار ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں