توہین عدالت کیس: ملزمان پر 20 جنوری کو فرد جرم عائد کی جائے گی، اسلام آباد ہائیکورٹ

16 جنوری 2022
حکم نامے میں کہا گیا کہ توہین کے ملزمان کو کافی وقت دے لیا، ان کا مؤقف ماننا زیر التوا کیسز سے متعلق کچھ بھی چھاپنے کا لائسنس دینے جیسا ہے۔—تصویر: ڈان نیوز
حکم نامے میں کہا گیا کہ توہین کے ملزمان کو کافی وقت دے لیا، ان کا مؤقف ماننا زیر التوا کیسز سے متعلق کچھ بھی چھاپنے کا لائسنس دینے جیسا ہے۔—تصویر: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کے حلف نامے سے متعلق توہین عدالت کی کارروائی میں صحافیوں کو بری کرنے کے بارے میں عدالتی معاونین کی رائے کو عملی طور پر مسترد کر تے ہوئے رانا محمد شمیم سمیت تمام فریقین پر 20 جنوری کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے 7 جنوری کی عدالتی کارروائی کا حکم نامہ جاری کیا جس میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’سیکریٹری جنرل پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ناصر زیدی، سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ فیصل صدیقی اور ریما عمر سمیت تین عدالتی معاونین نے کیس میں معاونت کی اور ان کا زیادہ زور آزادی اظہار رائے اور آزاد صحافت پر تھا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 'عدالتی معاونین نے واضح طور پر یہ تجویز نہیں کیا کہ توہین عدالت کے مبینہ ملزمان کے مؤقف کو قبول کیا جائے کہ اس سے مستقبل میں قانونی چارہ جوئی اور فریق ثالث کو وسیع پیمانے پر دستیاب اخبار کا غلط استعمال کرنے کی اور استثنیٰ کے ساتھ زیر التوا کارروائی میں مداخلت کی سہولت مل سکے'۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ ’عدالتی معاونین نے یہ بھی تجویز نہیں کیا کہ زیر التوا کارروائی غیر مؤثر ہوگئی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: رانا شمیم و دیگر کے خلاف فرد جرم کی کارروائی ملتوی، فریقین کو 'سوچنے کی مہلت‘

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ ’زیر التوا عدالتی کارروائی کے دوران توہین عدالت کےمبینہ ملزمان کی طرف سے شائع ہونے والی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عدالتی اصول سے واقف نہیں اور نہ ہی انہوں نے قانونی رائے حاصل کرنے پر معقول توجہ دی ہے۔‘

عدالت کا کہنا تھا کہ ’اس کا اظہار دی نیوز انٹرنیشنل اور روزنامہ جنگ میں توہین عدالت کے مبینہ ملزمان کی جانب سے کیس کی کارروائی کے دوران اور اس سے متعلق شائع ہونے والی خبروں سے بھی ہوتا ہے، جنہوں نے توہین عدالت کی کارروائیوں سے متعلق قومی اور بین الاقوامی اداروں/تنظیموں کی رائے کے حوالے سے خبریں شائع کی ہیں۔‘

حکم نامے میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’میڈیا کی آزادی انتہائی اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ یہ عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے اور دیگر بنیادی حقوق کے نفاذ کو یقینی بناتا ہے‘۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ ’تاہم جیسا کہ بتایا گیا کہ یہ لامحدود نہیں ہے اور یقینی طور پر کسی صحافی یا موقر اخبار کے پبلشرز کو عدالتی کارروائی میں تعصب اور نظام انصاف میں رکاوٹ یا مداخلت کرنے کا لائسنس نہیں دیتی‘۔

مزید پڑھیں: رانا شمیم کے بیانِ حلفی کی تحقیقات کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ

اس کے علاوہ حکم نامے میں کہا گیا کہ سابق چیف جج کے وکیل لطیف آفریدی توہین عدالت کے مبینہ ملزمان کے خلاف فرد جرم عائد نہ کرنے پر عدالت کو قائل نہیں کر سکے۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ ’ افسوس سے کہنا پڑتا ہے توہین کے ملزمان کو کافی وقت دیا گیا اس کے باوجود ان کا مسلسل یہی مؤقف رہا کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا‘۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ ’رپورٹر، ایڈیٹر اور ایڈیٹر ان چیف کا کیس زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اگر ان کے مؤقف کو تسلیم کر لیا جائے تو عدالتی اصول نہ صرف بے کار ہو جائے گا بلکہ اس سے موقر اخبارات کو کسی بھی دستاویز کی غیرذمہ دارانہ اشاعت کا لائسنس مل جائے گا، جوکہ غلط بھی ہوسکتا ہےاور زیر التواء کارروائی کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے‘۔

حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ عدالت کی نظر میں صحافیوں کا مؤقف، صحافت کے بین الاقوامی اصولوں سے متصادم ہے، ان کا مؤقف بنیادی طور پر تضادات سے بھرپور اور عوامی مفاد میں نہیں ہے۔

عدالت کا مزید کہنا تھا کہ ’تاہم وہ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے جو کہ عدالتی قاعدے کی خلاف ورزی ہے، اس سے لوگوں کے اور خصوصاً عدالت میں کیس کرنے والوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے‘۔

ساتھ ہی عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کے لیے رانا محمد شمیم اور صحافیوں کو ذاتی طور پر 20 جنوری کو پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں