وزیراعظم کا موسمیاتی تبدیلیوں کےخلاف ‘پائیدار نظام’ پر زور، سیلاب سے مزید 18 افراد جاں بحق

وزیر اعظم شہباز شریف نے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ‘پائیدار نظام’ کی ضرورت پر زور دیا—فوٹو:اے ایف پی
وزیر اعظم شہباز شریف نے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ‘پائیدار نظام’ کی ضرورت پر زور دیا—فوٹو:اے ایف پی

پاکستان میں بدھ کے روز سیلاب سے مزید 18 افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاع موصول ہوئیں جب کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ‘پائیدار نظام’ کی ضرورت پر زور دیا جس کی عدم موجودگی کے باعث حالیہ مون سون سیزن کے دوران پاکستان میں غیر معمولی بدترین بارشوں اور سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔

تباہ کن سیلاب کی بے انتہا شدت کے پیش نظر حکام کو امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہے جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ قدرتی آفت سے سوا 3 کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں جو اس کی آبادی کا 15 فیصد ہیں۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 18 افراد ہلاکت خیز سیلاب کے دوران جان کی بازی ہار گئے جب کہ 14 جون سے اب تک جاں بحق افراد کی تعداد ایک ہزار 343 ہوگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘پانی اس وقت سر پر آن پہنچا، جب سب بستروں پر گہری نیند سورہے تھے’

نیشنل فلڈ رسپانس کوآرڈینیشن سینٹر (این ایف آر سی سی) نے اپنے بیان میں ان اعداد و شمار کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سیلاب کی وجہ سے 17 افراد زخمی ہوئے ہیں جب کہ اب تک رپورٹ ہونے والے زخمیوں کی کل تعداد 12ہزار 720 ہو گئی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آج خیبر پختونخوا، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے کچھ علاقوں کے ساتھ ملحقہ پہاڑوں پر گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے جب کہ ملک کے دیگر علاقوں میں موسم گرم اور مرطوب رہنے کی توقع ہے۔

آج صبح این ایف آر سی سی کے ڈپٹی چیئرپرسن احسن اقبال اور فورم کوآرڈینیٹر میجر جنرل ظفر اقبال نے سیلاب کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے فورم کے اجلاس کی صدارت کی۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی، اصلاحات اور خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے کہا کہ حکومت کی اولین ترجیح سیلاب زدگان کی امداد یے جو پہلے دن سے جاری ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے پوری قوم متاثرہ لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے۔

مزید پڑھیں: عالمی ادارہ صحت کا سیلاب زدہ علاقوں میں صورتحال مزید بگڑنے کا انتباہ

ان کا کہنا تھا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے متعدد بیماریاں سامنے آئی ہیں خاص طور پر پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں جس سے متاثرہ افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی زیر صدارت نیشنل فلڈ ریسپانس کوآرڈینیشن سینٹر کے اجلاس میں کیا، اجلاس میں سیلاب سے متعلق امدادی سرگرمیوں میں پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔

وفاقی وزیر نے این ڈی ایم اے اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز (پی ڈی ایم اے) کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے سروے تیز کرنے کی ہدایت کی، اجلاس میں چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، پی ڈی ایم ایز کے سربراہان اور دیگر متعلقہ اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی۔

احسن اقبال نے کہا کہ حکومت کی اولین ترجیح سیلاب زدگان کی امداد ہے جو پہلے دن سے جاری ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے پوری قوم متاثرہ لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں قدرتی آفات پر مرکوز معاشی حکمت عملی مؤثر بنانے کی فوری ضرورت

وفاقی وزیر نے متعلقہ حکام کو امدادی سرگرمیاں تیز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے جلد سروے مکمل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے متعدد بیماریاں سامنے آئی ہیں خاص طور پر پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں جس سے متاثرہ افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔

وفاقی وزیر نے وزارت صحت اور صوبائی حکومتوں کے حکام پر زور دیا کہ وہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں طبی امداد میں تیزی لائیں اور سیلاب سے متعلق امدادی سرگرمیوں میں آئی این جی اوز اور این جی اوز کو شامل کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔

انہوں نے حکام کو یہ بھی ہدایت جاری کیں کہ وہ لوگوں کو ریلیف کیمپوں کے بارے میں آگاہ کرتے رہیں اور ڈیموں میں پانی کی سطح کو باقاعدہ مانیٹر بھی کیا جائے۔

ریلیف اور بحالی کے لیے ‘کھربوں روپے’ درکار ہیں، وزیراعظم

دوسری جانب وزیر اعظم سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جاری بحالی اور امدادی کاموں کا جائزہ لینے ڈیرہ اسمٰعیل خان پہنچنے، شہباز شریف نے ڈیرہ اسمٰعیل خان کے سیلاب سے متاثرہ سگو پُل کادورہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ایشیائی ترقیاتی بینک کی پاکستان میں ریلیف اقدامات کیلئے 30 لاکھ ڈالر کی منظوری

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ‘پائیدار نظام’ کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب کے بعد ریلیف اور بحالی کی سرگرمیوں کے لیے ‘ٹریلینز’ درکار ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی وتعمیر نو کے لیے بڑے پیمانے پروسائل درکار ہوں گے، تاہم متاثرین کو ہر ممکنہ وسائل فراہم کریں گے، ٹانک میں 100 گھروں پر مشتمل بستی کا 2 ہفتے بعد افتتاح کریں گے، گھروں کی تعمیر کے لیے نقد رقم دینے یا گھر تعمیر کرکے دینے پر غور کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بارشوں کی وجہ سے سیلاب کے نقصانات سے بچاؤ کے لیے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کرنا ہوگی، دیر پا منصوبے بنانے ہوں گے، متاثرین کی امداد شفاف طریقے سے ان تک پہنچائیں گے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

اس موقع پر وزیر اعظم کو ٹریفک کی بحالی اور دیگر امدادی سرگرمیوں پر بریفنگ دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کی پاکستان میں سیلاب متاثرین کیلئے16کروڑ ڈالر کی ہنگامی امداد کی اپیل

وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ سڑکوں اور پُلوں کی بحالی کے لیے این ایچ اے نے دن رات کام کیا۔ سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے تمام ادارے مل کر کام کر رہے ہیں۔

اس موقع پر مولانا فضل الرحمٰن، وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود، انجینئر امیر مقام بھی وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔

سگو پُل کے دورے کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ میں ایک بار پھر مصیبت کی اس گھڑی میں صورتحال کے جائزے کے لیے آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں، گزشتہ مرتبہ ٹانک اور ڈیرہ اسمٰعیل خان آیا تھا تو اس وقت یہ علاقے حالیہ بارشوں کی تباہی سے پہلے کے ریلے میں مشکل سے نکل رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اپنے رفقا کے ساتھ جاکر متاثرین کو تسلی دی تھی کہ اس وقت مشکل وقت اور قدرتی آفت ہے لیکن اللہ کی مدد سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں ، ادارے اور افواج پاکستان مل کر پسند ناپسند اور سیاست سے بالاتر ہو کر علاقے کی خدمت کے لئے کام کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن، اسعد محمود اور امیر مقام سمیت صوبائی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنی بساط کے مطابق بھر پور کام کیا، افواج پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ہر جگہ متاثرین کو مدد فراہم کی اور اپنی استعداد سے بڑھ کر دن رات انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: سیلاب متاثرین کے لیے فلاحی ادارے کیا کررہے ہیں اور انہیں کن چیزوں کی ضرورت ہے؟

انہوں نے کہا کہ قمبر شہدادکوٹ اور سندھ کے دیگرمتاثرہ علاقوں میں تاحدنگاہ پانی کھڑا ہے، بلوچستان، خیبر پختونخوا میں تباہی ہوئی ہے، سوات میں دریا کے اندر تعمیرات سنگین غلطی تھی، وہاں قطعی طور پر تعمیرات کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی، وہاں سیلابی ریلے نے تباہی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ لوئر کوہستان میں 5 افراد 5 گھنٹے تک تندوتیز لہروں میں کھڑے رہے اور اللہ کو پیارے ہو گئے، غذر میں گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گیا، ایک خاندان کے 8 افراد لقمہ اجل بن گئے۔

شہباز شریف نے کہا کہ ایک بچی اور اس کے خاندان کا معذور فرد زندہ بچے، ان کو یقین دلایا کہ ان کی ہر ممکن مدد کریں گے، وہاں کے مقامی لوگوں سے بھی امید ہے کہ ان کا خیال رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے پاکستان میں اس سےزیادہ تباہی نہیں دیکھی، گزشتہ حکومت نے وسائل کی بربادی کی، ہم نے سیاست کو ایک طرف رکھ کر خدمت کرنی ہے، وفاق میں حکومت مخلوط ہے، اس حکومت نے پہلے 28 ارب روپے متاثرہ گھرانوں کے لیے مختص کیے، 25 ہزار روپے فی خاندان دیے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو 10 ارب ڈالر درکار ہیں، احسن اقبال

ان کا کہنا تھا کہ ان میں 20 ارب روپے شفاف طریقے سے بی آئی ایس پی کے ذریعے تقسیم کیے جاچکے ہیں، سیلاب کی تباہ کاریوں کے بڑھنے سے حقائق کی بنیاد پر تخمینہ اب 70 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ یہ مالی بوجھ وفاقی حکومت برداشت کر رہی ہے باقی اخراجات اس کے علاوہ ہیں، اس کے علاوہ جاں بحق ہونے والوں کے لیے 10، 10 لاکھ فی کس دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ اور دیگر متاثرہ علاقوں میں لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، وفاقی حکومت چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں متاثرین کے لیے یہ وسائل فراہم کر رہی ہے، صوبے بھی اپنے وسائل سے دے رہے ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ انہیں بھی مزید وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے، وزیراعظم نے کہا کہ این ڈی ایم اے کے ذریعے 2 لاکھ خیمے چاروں صوبوں کو نقصانات کے حجم کے مطابق فراہم کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ این ایچ اے، وزیر اور سیکریٹری مواصلات متاثرہ شاہراہوں کی بحالی کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں، ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ وفاق یا صوبہ کس کا کام ہے، ہم اپنا کام کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں پانی کھڑا ہے وہاں وبائی امراض کے چیلنج کا سامنا ہے، یہاں صحت کی سہولیات کی فراہمی اور متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کے لیے کھربوں روپے درکار ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب کے باعث پاکستان کو 10 ارب ڈالر کے نقصان کا تخمینہ

وزیر اعظم نے کہا کہ یہ بہت بڑا چیلنج ہے، دوست ممالک کی جانب سے امداد کی فراہمی پر ان کے شکر گزار ہیں، متاثرین کو ملنے والی امداد کی ایک ایک پائی شفاف طریقے سے ان تک پہنچائیں گے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، حقدار کو ہر صورت اس کا حق دلایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ٹانک میں ایک مخیر شخص کے مالی تعاون سے 2 کمروں پر مشتمل 100 گھروں کا 2 ہفتے بعد افتتاح کریں گے، اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوا تو اس کو تمام متاثرہ علاقوں تک بڑھائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیلاب اور بارشوں سے لاکھوں گھر تباہ ہوئے ہیں، ان کو معاوضہ ادا کرنا ہے، تاہم اس کے لیے یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ گھروں کی تعمیر کے لیے نقد رقم دی جائے یا گھر بنا کر دیے جائیں، اس میں کچھ خدشات بھی ہیں، کچھ آسانیاں اور کچھ مشکلات بھی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب کی تباہ کاریاں: ڈی جی خان میں ہزاروں افراد ڈائریا، دیگر بیماریوں میں مبتلا

شہباز شریف نے کہا کہ موجودہ سیلاب بارش کی وجہ سے ہے، مون سون میں سیلاب دریاؤں میں طغیانی کی وجہ سے آتا ہے، اس کے لیے مستقل منصوبہ بندی کرنا ہوگی، چھوٹے ڈیم اور دیرپا منصوبے بنانا ہوں گے، اس صورتحال نے ہر چیز کو تباہ کیا ہے، اس سے غربت سمیت لمبے عرصے تک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ تمام صوبائی حکومتوں، اداروں، افواج پاکستان، فلاحی تنظیموں کے شکر گزار ہیں جو متاثرین کے لیے کام کر رہی ہیں۔

انہوں نے متاثرین سے کہا کہ وہ صبر سے کام لیں، آخری فرد اور گھر کی آبادکاری تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ میں اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ہر جگہ جارہا ہوں، متاثرین کو ہر حال میں وسائل فراہم کریں گے، ہمیں صبر، اتحاد اور اتفاق سے کام لینا ہوگا، انصاف اور شفافیت ہمارا مطمع نظر ہوگا۔

اس موقع پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانافضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم وزیر اعظم کا شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ اس مشکل وقت میں ہماری دادرسی کی اور خود یہاں تشریف لائے، این ایچ اے اور دیگر اداروں نے دن رات کام کیا جس پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہی۔

ان کا کہنا تھا کہ فوجی جوانوں نے مقامی افراد اور امدادی تنظیموں کے ساتھ مل کر سیلاب میں پھنسے افراد کو نکالا، ہم اس کی دل سے قدر کرتے ہیں، متاثرین کے لیے کھانا اور امداد پہنچائیں۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب سے بچاؤ کے لیے مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی اور اقدمات کی ضرورت ہے، اگر ایسا نہیں کی اگیا تو تباہ کاریاں جاری رہیں گی۔

مزید پڑھیں: منچھر جھیل میں اخراج کیلئے ‘کٹ’ کے باوجود پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ

انہوں نے کہا کہ مفتی محمود ہسپتال میں پانی چڑھ گیا، آبادی کو بچانے کے لیے بڑی شاہراہیں کاٹی گئیں، این ایچ اے نے فوری کارروائی کرکے شاہراہیں بچائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں لوگ ابھی تک پانی میں پھنسے ہیں، سوات، دیر، کوہستان میں بہت تباہ کاریاں ہوئی ہیں، نقصانات کی تمام تفصیل وزیر اعظم کی گوش گزار کی ہے تاکہ دل کھول کر متاثرین کی مدد کی جاسکے۔

منچھر جھیل میں پانی کی سطح معمولی کمی

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق منچھر جھیل میں پانی کی سطح میں بدھ کو معمولی کمی ریکارڈ کی گئی، پانی کی سطح صبح 122.5 فٹ تھی جو شام کو کم ہو کر 122.3 فٹ ہو آ گئی۔

دوسری جانب، دریائے سندھ میں کوٹری بیراج کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب برقرار ہا، اور دوپہر کے وقت پانی کا بہاؤ 5 لاکھ 83 ہزار 882 کیوسک جبکہ اپ اسٹریم کا اخراج 6 لاکھ 41 ہزار 27 کیوسک رہا، بدھ کو کوٹری بیراج پر اپ اسٹریم اخراج میں معمولی کمی دیکھی گئی۔

واپڈا کے چیف انجینئر (پانی) سکھر نعیم قادر منگی کے مطابق مین نارا ویلی ڈرین میں منگل کو آر ڈی-10 میں شگاف پڑنے سے بہاؤ میں معمولی کمی ہوئی۔

سندھ میں سیلاب کی صورتحال

ملک کے شمالی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے بعد سیلاب کا پانی سندھ میں جمع ہو گیا ہے جہاں ضلع دادو خاص طور پر متاثر ہوا ہے۔

ڈی سی دادو سید مرتضیٰ علی شاہ کے اندازے کے مطابق ضلع میں 7 جولائی سے اب تک بارشوں اور سیلاب سے ایک 12 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ضلع میں 201 ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں جہاں سیلاب سے متاثرہ افراد کو دن میں 2 وقت کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔

ڈی سی نے مزید کہا کہ ڈاکٹروں کی ٹیمیں طبی امداد کی فراہمی کے لیے ضلع میں قائم ریلیف کیمپوں اور سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کر رہی ہیں جب کہ ہمیں خیموں کی کمی کا سامنا ہے اور ہم نے حکومت کو مزید سامان کی فراہمی کے لیے لکھا ہے۔

دادو کے حلقہ این اے 235 سے منتخب ہونے والے ایم این اے رفیق احمد جمالی نے بھی خیموں کی کمی کے مسئلے کی جانب اشارہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک لاکھ خیموں کی فوری ضرورت ہےتا کہ سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو پناہ فراہم کی جاسکے۔

فلڈ فورکاسٹنگ

فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کی ویب سائٹ پر جاری اعداد و شمار کے بدھ کی صبح کوٹری کے مقام پر دریائے سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب تھا اور دوپہر تک صورتحال میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: وزارت صحت کے تحت سندھ اور بلوچستان میں طبی کیمپس کا انعقاد

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی جانب سے گزشتہ روز کی سندھ کی جاری کردہ ڈرون فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ زرعی اور رہائشی علاقے مکمل طور پر پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

گزشتہ روز سندھ کی منچھر جھیل میں پانی کی سطح میں معمولی کمی دیکھی گئی جب کہ حال ہی میں اس کے پشتوں پر کی گئی مقامات پر پانی کے اخراج کے لیےشگاف لگائے گئے تھے جس کے نتیجے میں انڈس ہائی وے کا ایک حصہ زیرآب آگیا تھا جو سہون اور بھان سعید آباد کے درمیان واقع ہے۔

سیلاب کے باعث سہون ٹول پلازہ کے قریب واقع پل کو بھی نقصان پہنچا جب کہ ہائی وے کا 30 کلومیٹر طویل حصہ ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا۔

موٹروے پولیس کے اہلکار ثاقب احمر نے ڈان کو بتایا کہ سڑک پر رکاوٹیں لگا دی گئی ہیں اور مسافروں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ یہ راستہ استعمال نہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں قدرتی آفات پر مرکوز معاشی حکمت عملی مؤثر بنانے کی فوری ضرورت

ڈان کی رپورٹ کے مطابق منچھر جھیل کے پانی کے باعث منگل کے روز سہون ایئرپورٹ ایمپلائیز کالونی اور لاؤنج زیرِ آب آگیا تھا جب کہ سیہون شہر اور بھان سعید آباد کی آخری لائف لائن ارال واہ پشتے پر دباؤ بڑھ گیا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پانی یوسی بوبک، آرازی، جعفرآباد، پکا چنہ اور واہور کے دیہات کو متاثر کر رہا ہے جب کہ سہون تعلقہ کے 300 کے قریب چھوٹے اور بڑے گاؤں منچھر جھیل کے پانی سے زیر آب آ گئے ہیں۔

اسی دوران، رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ حکام منچھر میں ایک شگاف کو بڑا کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں تاکہ پشتوں کو ٹوٹنے سے بچایا جا سکے۔

ڈی سی دادو مرتضیٰ شاہ نے رائٹرز کو بتایا کہ کل، جوہی اور میہڑ ٹاؤنز کے پشتوں پر بہت زیادہ دباؤ تھا لیکن ان کو مضبوط بنا کر اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا جارہا ہے جب کہ قصبوں کی 80 سے 90 فیصد آبادی پہلے ہی اپنے گھروں کو چھوڑ بھاگ چکی ہے۔

سیلاب نے دادو کے قریبی علاقے جوہی کو جزیرہ نما قصبے میں تبدیل کر دیا ہے جب کہ مقامی لوگوں کی جانب سے تعمیر کردہ ایک پشتہ علاقے میں پانی کی مزید آمد کو روکے ہوئے ہے۔

یورپی یونین کا امداد کو مربوط کرنے کا اعلان

اس کے علاوہ، یورپی یونین (ای یو) نے کہا ہے کہ وہ پاکستانی حکام کی درخواست پر ملک مدد کے لیے آنے والی امدادی کوششوں کو باہم مربوط کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: ڈی جی خان میں امدادی سامان لوٹنے پر ہجوم کےخلاف مقدمہ درج

یورپی یونین کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یورپی سول پروٹیکشن میکانزم مزید امداد کی آمد کو مربوط کرنے میں مدد کے لیے رابطہ افسر تعینات کر رہا ہے۔

یورپی یونین کے رکن ممالک سے اب تک موصول ہونے والی پیشکشوں میں بیلجیم اور سویڈن کی جانب سے 300 خیمے، 83 موبائل واٹر پمپ، ایک ہزار گراؤنڈ شیٹس، 200 کچن کٹس، 400 حفظان صحت کی کٹس، 8 ڈاکٹروں اور چار ٹیکنیشنز پر مشتمل ٹیم، فرانس سے ایک بیلی برج، ڈنمارک سے پانی صاف کرنے والی ٹیم اور آسٹریا سے 4 لاکھ اینٹیجن ٹیسٹ اور 10 ہزار دستانے شامل ہیں۔

یہ امداد گزشتہ ہفتوں کے دوران سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کی مدد کے لیے جاری کی جانے والی یورپی یونین کی 2.15 ملین یورو امداد اور منگل کو جاری ہونے والے ڈیزاسٹر رسپانس ایمرجنسی فنڈ کے تحت جاری امدادی 2 لاکھ یورو میں شامل ہے۔

صحت کا بحران

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی مون سون کی غیر معمولی بدترین بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب سے پاکستان میں سوا 3 کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: دن رات لیکچرز دینے والے ان مسائل کا حل نکالیں جو سیلاب کی وجہ بنے، وزیر اعظم

اقوام متحدہ نے 16 کروڑ ڈالر کی امداد کی اپیل کی ہے تاکہ اس بڑی تباہی سے نمٹنے میں مدد کی جا سکے جسے اس نے قدرتی آفت اور موسمیاتی تباہی قرار دیا۔

وفاقی کابینہ نے گزشتہ روز بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کے لیے مجموعی معاوضے کی رقم 28 ارب روپے سے بڑھا کر 70 ارب روپے کرنے کے فیصلے کی بھی منظوری دی تھی۔

دریں اثنا، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ ہلاکت خیز سیلاب سے تباہ حال پاکستان میں انسانی صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے

ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ ایک ہزار 460 سے زیادہ مراکز صحت کو نقصان پہنچا ہے جن میں سے 432 مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں، سب سے زیادہ مراکز صحت سندھ میں تباہ ہوئے۔   ڈبلیو ایچ او اور اس کے شراکت داروں کی جانب سے 4 ہزار 500 سے زیادہ میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں جب کہ ڈائریا، ملیریا، ڈینگی، ہیپاٹائٹس اور چکن گونیا کے دو لاکھ 30 ہزار سے زیادہ ریپڈ ٹیسٹ کیے جاچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت سیلاب متاثرین میں 19.8 ارب روپے تقسیم

ڈبلیو ایچ او کے ترجمان طارق جساریوک کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کووڈ 19، ایچ آئی وی اور پولیو کے ساتھ ساتھ اس طرح کی بیماریاں پہلے ہی پھیل رہی تھیں جب کہ سیلاب کے بعد صورتحال مزید خراب ہونے کا خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈائریا، ٹائیفائیڈ، خسرہ اور ملیریا کے کیسز کی تعداد میں اضافے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، یہ بیماریوں ان علاقوں میں زیادہ پھیل رہی ہیں جو سیلاب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ صورتحال کے مزید خراب ہونے کے خدشات ہیں جب کہ سیلاب سے شدید متاثر ہونے والے علاقوں تک پہنچنا بھی تاحال انتہائی دشوار ہے۔

سندھ کی وزیر صحت عذرا پیچوہو نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس کے دوران اسی طرح کے مسائل کو اجاگر کیا تھا، خاص طور پر سیلاب زدہ علاقوں میں مزید خواتین ڈاکٹروں کی ضرورت پر زور دیا۔

قبل ازیں، وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے کہا تھا کہ رواں ماہ سیلاب سے متاثرہ 20 سے زائد اضلاع میں 1200 سے زیادہ طبی امدادی کیمپ لگائے جائیں گے تاکہ متاثرہ شہریوں کو طبی امداد فراہم کی جا سکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں