چمن بارڈر پر فائرنگ: افغان حکومت نے واقعے کی معافی مانگ لی، معاملہ حل ہو گیا، خواجہ آصف

وزیر دفاع خواجہ کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال—فوٹو: ڈان نیوز
وزیر دفاع خواجہ کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو : رائٹرز
—فوٹو : رائٹرز

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بلوچستان کے ضلع چمن میں افغان فورسز کی طرف سے شہری آبادی پر بلااشتعال گولہ باری و فائرنگ کرنے کے واقعے پر افغان حکومت نے معذرت کی ہے اور اب معاملہ حل ہو چکا ہے۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ چمن میں سرحد پر اشتعال انگیزی افغان فورسز کی طرف سے کی گئی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ سرحد پر باڑ کا ایک حصہ متاثر تھا جہاں ہمارے لوگ اس کی مرمت کر رہے تھے کہ افغان فورسز نے باڑ کو جیپ سے توڑ دیا اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ کام سرحد کی سیکیورٹی کمیٹی کے پاس جانا چاہیے تھا۔

وزیر دفاع نے کہا کہ جب معاملہ بڑھا تو افغان فورسز نے فائرنگ شروع کردی جہاں ابتدائی فائرنگ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا مگر بعدازاں جب انہوں نے بھاری اسلحہ کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں 5 شہری جاں بحق ہوگئے تھے جبکہ 2 افراد کوئٹہ جاتے ہوئے چل بسے تھے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ جوابی کارروائی میں پاکستانی فورسز نے بھی افغان چیک پوسٹ پرفائرنگ کی جس کے نتیجے میں کم از کم 9 افغان اہلکار جاں بحق ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے کے بعد بارڈر سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس ہوا جہاں اس پر اتفاق کیا گیا کہ افغانستان کی غلطی تھی، تاہم ہمیں یقین ہے کہ حملے کے پیچھے کوئی مقصد نہیں تھا جبکہ حملے کی منصوبہ بندی کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا۔

وزیر دفاع نے اعتراف کیا کہ افغان حکام نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے وعدہ کیا ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہیں ہوں گے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ ’اسپیکر صاحب، ایک چیز صاف ہے کہ افغانستان کی اندرونی صورتحال پاکستان کے ساتھ تعلقات میں نظر آرہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان، افغانستان کا خیرخواہ ہے وہاں کے حالات میں بہتری چاہتا ہے اور ہم افغانستان میں امن کے لیے تعاون کریں گے۔

افغان حکومت یقینی بنائے چمن جیسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں، وزیر اعظم

وزیر اعظم شہباز شریف نے چمن میں افغان بارڈر فورسز کی بلااشتعال گولہ باری کی مذمت کرتے ہوئے افغان حکومت سے اس بات کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے کہ دوبارہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔

وزیر اعظم کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ چمن پر افغان بارڈر فورسز کی بلااشتعال گولہ باری اور فائرنگ کے نتیجے میں متعدد پاکستانی شہری شہید اور ایک درجن سے زائد افراد کا زخمی ہونا افسوسناک اور شدید قابلِ مذمت ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’افغان عبوری حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں‘۔

قبل ازیں دفتر خارجہ نے چمن میں افغان فورسز کی بلااشتعال گولہ باری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے افسوسناک واقعات دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کے مطابق نہیں ہیں۔

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ افغان حکام کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما ہونے سے روکا جائے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جانی چاہیے۔

بیان میں کہا گیا کہ سرحد پر شہریوں کی حفاظت کرنا دونوں فریقین کی ذمہ داری ہے، دونوں ممالک کے متعلقہ حکام اس بات کو یقینی بنانے کے لیے رابطے میں ہیں کہ صورتحال مزید خراب نہ ہو۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز افغان بارڈر فورسز نے بلوچستان کے ضلع چمن میں شہری آبادی پر توپ خانے/مارٹر سمیت بھاری ہتھیاروں سے بلااشتعال اور اندھا دھند فائرنگ و گولہ باری کی تھی جس کے نتیجے میں 6 شہری جاں بحق اور 17 افراد زخمی ہوگئے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاکستان کی بارڈر فورسز نے جارحیت کے خلاف مناسب جواب دیا لیکن علاقے میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان نے صورتحال کی سنگینی کو اجاگر کرنے کے لیے کابل میں افغان حکام سے بھی رابطہ کیا ہے اور مستقبل میں اس طرح کے کسی بھی واقعے کو روکنے کے لیے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

قبل ازیں ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) چمن عبداللہ علی کاسی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھا کہ چمن میں پاک-افغان سرحد پر افغانستان سے ایک مارٹر گولہ پھینکا گیا جس کے بعد فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔

ڈی جی پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سیکریٹری صحت بلوچستان صالح محمد ناصر کی ہدایت پر سول ہسپتال کوئٹہ میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔

وزیراعلی بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو نے پاک-افغان سرحد پر بلوچستان کے ضلع چمن میں سرحد پار سے فائرنگ اورراکٹ باری پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ امید ہے وفاقی حکومت سفارتی سطح پر اس مسئلے کے فوری اور مؤثر حل کو یقینی بنائے گی۔

وزیراعلی بلوچستان کا ضلعی انتظامیہ چمن کو متاثرہ شہریوں کو بھرپور معاونت کی فراہمی، سول ڈیفنس کے ادارے اور ضلعی انتظامیہ شہریوں کو ہنگامی صورتحال میں مدد و رہنمائی فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔

’فائرنگ کا واقعہ‘

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق یہ واقعہ گزشتہ روز بلوچستان کے ضلع چمن بارڈر پر پیش آیا تھا۔

بعدازاں ایک افسر نے ڈان کو بتایا کہ سرحد کے قریب لالا محمد نامی گاؤں میں جب افغان فورسز نے باڑیں اکھاڑنے کی کوشش کی تو دونوں فریقین میں کشیدگی ہوگئی جس کے بعد چمن بارڈر پر ’بابِ دوستی‘ کو بند کردیا گیا۔ تاہم آدھے گھنٹے بعد مسافرین اور ٹریفک کے لیے سرحد کو ایک بار پھر کھولا گیا۔

انہوں نے کہا کہ تھوڑی دیر بعد ہی افغان فورسز نے پاکستانی سرحد میں شوکت اور الیاس نامی چوکیوں پر فائرنگ شروع کردی اور پھر افواج پاکستان نے بھی اشتعال میں جوابی فائرنگ کی مگر پھر افغان فورسز نے شیل اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے شہری آبادی کو نشانہ بنایا۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ اردو نے رپورٹ کیا کہ چمن شہر سے موصول ہونے والی ویڈیوز میں شہر کے قریب سرحدی سڑک پر گولہ گرنے کے بعد دھول کے بادل دکھائی دے رہے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ شہریوں کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ویڈیوز میں مارٹر گولے علاقے میں گر رہے ہیں۔

تاہم غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق افغانستان میں قندھار کے گورنر کے ترجمان عطااللہ زید نے جھڑپوں کو افغان کی طرف سرحد میں نئی چوکیوں کی تعمیر سے جوڑتے نظر آئے۔

علاوہ ازیں انہوں نے چمن میں مقامی میڈیا کو فون کے ذریعے اطلاع دی کہ فائرنگ سے ایک اہلکار جاں بحق جبکہ 10 اہلکاروں سمیت تین شہری زخمی ہوئے ہیں۔

پاکستانی حکام نے کہا کہ چمن میں مصروف افغان بارڈر تجارت اور ٹرانزٹ کے لیے استعمال ہوتا ہے جو واقعے کے بعد چند گھنٹوں کے لیے بند کر دیا گیا۔

’گزشتہ ماہ بھی بارڈر بند کیا گیا تھا‘

گزشتہ ماہ بھی اسی طرح کے واقع کے بعد باب دوستی کو کئی دنوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔

13 نومبر کو ایک مسلح شخص کی جانب سے باب دوستی پر پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کے بعد سرحد کو بند کردیا گیا تھا۔

حکام نے اس وقت بتایا تھا کہ اس واقعے کے بعد پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان ایک گھنٹے سے زائد تک فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں