افغان طالبان کا ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں سے متعلق پاکستان کے خدشات پر تعاون کا وعدہ

اپ ڈیٹ 23 فروری 2023
دفتر خارجہ سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش خراسان کے بڑھتے ہوئے خطرے پر تبادلہ خیال کیا گیا—تصویر: دفتر وزیراعظم افغانستان
دفتر خارجہ سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش خراسان کے بڑھتے ہوئے خطرے پر تبادلہ خیال کیا گیا—تصویر: دفتر وزیراعظم افغانستان

افغان طالبان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں اور اپنی سرزمین پر پناہ گاہوں کی موجودگی کے بارے میں حکومت پاکستان کے خدشات پر اسلام آباد کی جانب سے سخت وارننگ دینے کے بعد اس کے ساتھ تعاون کرنے کا وعدہ کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دفتر خارجہ نے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی قیادت میں ایک وفد کے کابل کے ایک روزہ دورے کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش خراسان کے بڑھتے ہوئے خطرے پر تبادلہ خیال کیا گیا اور ’دونوں فریقین نے دہشت گردی کے خطرے سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے تعاون پر اتفاق کیا۔‘

وفد میں انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم، سیکریٹری خارجہ اسد مجید، افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی محمد صادق اور افغانستان میں پاکستان کے ناظم الامور عبید نظامانی شامل تھے، جو 3 دسمبر کو ان پر ہونے والے حملے کے بعد سے یہاں موجود ہیں۔

یہ دورہ کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے کراچی میں پولیس ہیڈکوارٹر پر دھاوا بولنے کے چند روز بعد ہوا ہے جس میں تین سیکیورٹی اہلکاروں سمیت چار افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

اس سے قبل 30 جنوری کو پشاور کی مسجد میں خودکش بم دھماکے میں تقریباً 100 افراد جاں بحق ہوئے تھے، مسجد پر حملے کا الزام بھی کالعدم ٹی ٹی پی پر عائد کیا گیا۔

جب سے عسکریت پسند گروپ اور حکومت کے درمیان امن مذاکرات گزشتہ سال کے آخر میں ناکام ہونا شروع ہوئے پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

کالعدم گروپ نے 28 نومبر کو باضابطہ طور پر جنگ بندی ختم کی تھی اور اس کے بعد سے اس کی جانب سے 58 حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی جن میں 170 افراد مارے گئے۔

ان میں سے بہت سے حملوں کی منصوبہ بندی اور ہدایات افغانستان میں مقیم کالعدم ٹی ٹی پی کی قیادت نے دی تھیں۔

ایک سینئر پاکستانی عہدیدار نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وفد نے طالبان حکام کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے افغانستان میں موجود عناصر کو لگام ڈالنی چاہیے۔

دورہ کرنے والے وفد نے طالبان کے نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر اخوند، وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد، وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اور وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی۔

افغان رہنما ماضی میں ہمیشہ ان الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان میں حملوں کے لیے ان کے ملک کی سرزمین استعمال کی ہے لیکن عہدیدار نے کہا کہ اس بار وہ حیرت انگیز طور پر اس معاملے میں تعاون پر رضامند ہو گئے، شاید انہیں صورت حال کی سنگینی کا احساس ہو گیا ہے’۔

کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف تعاون کی تفصیلات ماہرین اور تکنیکی سطح پر دونوں فریقین کے درمیان بعد میں ہونے والی ملاقاتوں میں طے کی جائیں گی۔

دونوں فریقین نے اپنی ملاقاتوں میں انسداد دہشت گردی اور سرحدی سیکیورٹی تعاون کے وسیع تر امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

دریں اثنا افغان طالبان نے کہا کہ دونوں جماعتوں نے اقتصادی تعاون، علاقائی روابط، تجارت اور دو طرفہ تعلقات کی حالت پر بات چیت کی۔

ملا برادر نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ ’سیاسی اور سیکیورٹی خدشات کو کاروباری یا اقتصادی معاملات پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہ دے‘۔

عہدیدار نے کہا کہ وفد نے باہمی تعاون بڑھانے کے ان تمام خیالات پر پیش رفت کو افغان طالبان کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی کی ان کے ملک میں موجودگی کے خدشات دور کرنے سے منسلک کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں