آئی ایم ایف نے اسحٰق ڈار اور شوکت ترین کو قرض پروگرام میں تاخیر کا ذمہ دار ٹھہرا دیا

اپ ڈیٹ 24 جولائ 2023
آئی ایم ایف کی اسٹاف رپورٹ 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پر دستخط کے بعد جاری کی گئی — فائل فوٹو: رائٹرز
آئی ایم ایف کی اسٹاف رپورٹ 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پر دستخط کے بعد جاری کی گئی — فائل فوٹو: رائٹرز

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ناکام 4 سالہ توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) قرض پروگرام کو ’کھویا ہوا موقع‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ شوکت ترین اور اسحٰق ڈار کی معاشی سرپرستی میں پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی حکومتوں نے غیر ذمہ دارانہ طور پر بجٹ میں اضافہ اور شرح تبادلہ میں مداخلت کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کی اسٹاف رپورٹ 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پر دستخط کے بعد جاری کی گئی، جس میں ساڑھے 6 ارب ڈالر کے ای ایف ایف کے مرحلہ وار پروگرام کی تفصیل بتائی گئی جو تقریباً 4 برسوں کے دوران بار بار پٹری سے اترا۔

آئی ایم ایف نے پروگرام کی مدت کو 3 مراحل میں تقسیم کیا، پہلا مرحلہ معیشت کو مستحکم کرنے میں کامیابی حاصل کرنا، دوسرا مرحلہ کورونا وبا جبکہ تیسرا ایک توسیعی اسٹاپ اینڈ گو مرحلہ ہے۔

دھچکوں کے تسلسل (کورونا وبا، یوکرین کی جنگ، 2022 کے سیلاب) اور پروگرام کے دوسرے نصف حصے میں کمپاؤنڈنگ پالیسی کی تبدیلی کے بعد ایڈجسمنٹس کی ضرورت تھی اور پروگرام کے اصل اہداف پہنچ سے باہر ہو گئے۔

جولائی 2019 کے فوراً بعد حکام کی فیصلہ کن پالیسی پر عمل درآمد نے پاکستان کے بڑے معاشی عدم توازن کو ختم کرنا شروع کر دیا، جس سے دسمبر 2019 میں پہلے جائزے کی کامیابی سے تکمیل ہو گئی، بیرونی ایڈجسٹمنٹ تیزی سے آگے بڑھی، مارکیٹ کی طرف سے طے شدہ شرح تبادلہ میں منتقلی ایک منظم طریقے سے آگے بڑھی اور مالیاتی کارکردگی مسلسل مضبوط ہوتی رہی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ای ایف ایف کے ابتدائی مرحلے میں بنائے گئے بفرز، ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے ’ریپڈ فنڈنگ انسٹرومنٹ‘ کے تحت فوری مدد، ڈیٹ سروِسنگ معطلی اقدام اور دیگر شراکت داروں کی جانب سے پاکستان کو کورونا وبا کے شدید دھچکوں سے نمٹنے میں مدد ملی اور حکام کی پالیسیاں معیشت کو سہارا دینے میں اہم ثابت ہوئیں۔

صحت سے متعلق روک تھام کے اقدامات کے علاوہ ان کے ردعمل میں ایک عارضی مالی محرک، سماجی تحفظ کی توسیع، مانیٹری پالیسی سپورٹ اور ہدف بنائے گئے مالیاتی اقدامات شامل تھے۔

اگرچہ کورونا وبا کے درمیان پالیسی کی ترجیحات لامحالہ تبدیل ہوئیں اور عمل درآمد کی رفتار سست پڑ گئی لیکن حکام درمیانی مدت کے مقاصد کے حصول کے لیے پُرعزم رہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ پروگرام مارچ 2021 میں دوسرے سے پانچویں مشترکہ جائزوں کی تکمیل کے ساتھ دوبارہ شروع ہوا اور اپریل 2021 میں پاکستان 2017 کے بعد پہلی بار عالمی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کے قابل ہوا۔

اس مرحلے پر اُس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین میدان میں آئے، آئی ایم ایف نے کہا کہ مضبوط بحالی کے درمیان حکام مالی سال 2022 کے توسیعی بجٹ کی منظوری کے ساتھ ای ایف ایف کے راستے سے بھٹک گئے، جنوری 2022 میں حکام کی جانب سے منی بجٹ کی منظوری کے ساتھ رخ درست کرنے سے پہلے 2021 کے دوران ای ایف ایف ٹریک سے ہٹا رہا۔

آئی ایم ایف نے مزید کہا کہ تاہم غلط وقت میں مالیاتی توسیع اور مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دباؤ پر مانیٹری پالیسی میں تاخیر کے ردعمل کے درمیان بیرونی عدم توازن بڑھنا شروع ہو گیا تھا۔

مزید برآں حکام نے ’ٹرمز آف ٹریڈ‘ کے دھچکے کو عارضی سمجھا، جس میں عملے کے مشورے کے خلاف غیر ملکی زر مبادلہ کی مداخلت کے رجحان کو کم کرنے کے لیے کردار ادا کیا گیا۔

کئی شعبوں میں تاخیر کے باوجود اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ میں ترامیم کی منظوری کے ساتھ اہم اصلاحات مکمل کی گئیں، ایک بار پھر فروری 2022 کے اوائل میں مکمل ہونے والے چھٹے جائزے کے ارد گرد پیدا ہونے والے مثبت رجحان نے پاکستان کو عالمی منڈیوں تک رسائی کی اجازت دی، یہ آخری موقع تھا جب پاکستان نے اس پروگرام کی مدت کے دوران تجارتی قرض دہندگان سے نئی مالی اعانت حاصل کی۔

دوسرا ’اسٹاپ اینڈ گو‘ مرحلہ چھٹے جائزے کی تکمیل کے چند ہفتوں بعد ہی شروع ہوا، روس-یوکرین تنازع کے بعد اجناس کی قیمتوں میں اضافے کے دوران حکومت نے ایندھن پر بڑی سبسڈی دے دی اور شرح تبادلہ میں مداخلت کے ذریعے روپے کی بے قدری کے دباؤ کو روکنے کی کوششیں جاری رکھیں۔

پی ڈی ایم تنقید کی زد میں

آئی ایم ایف نے کہا کہ سیاسی اتار چڑھاؤ اور آنے والی نئی حکومت نے جون 2022 میں ای ایف ایف کو دوبارہ ٹریک پر لانے کا فیصلہ کرنے سے پہلے مہینوں تک سبسڈی کو برقرار رکھا۔

ان اقدامات میں مالی سال 2023 کے متفقہ بجٹ کی منظوری، پالیسی کی شرح میں نمایاں اضافہ، ایندھن پر سبسڈی کو ختم کرنا اور ایندھن پر ٹیکس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ شامل ہے۔

میکرو اکنامک استحکام کی جانب واپس آنے کا عزم لیے حکام نے جون 2023 تک ای ایف ایف کی توسیع کی درخواست بھی کی، جسے منظور کیا گیا، اس میں دوطرفہ شراکت داروں کی جانب سے 4 ارب ڈالر کے مالیاتی خلا کو پُر کرنے کے لیے مالیاتی یقین دہانیوں کی مدد سے اگست 2022 میں ساتویں اور آٹھویں مشترکہ جائزے کی تکمیل ہوئی۔

یہ وہی وقت تھا جب پاکستان تباہ کن سیلاب کی زد میں تھا، اس موقع پر اسحٰق ڈار نے وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالا، شرح تبادلہ کو سختی سے کنٹرول کیا گیا اور قرضوں کی ممکنہ ری اسٹرکچرنگ کے بارے میں اعلانیہ بیانات نے مارکیٹ میں ہلچل پیدا کردی تھی، زرمبادلہ کی مارکیٹ میں فرق، مالیاتی پالیسی کے ارد گرد پائی جانے والی بےیقینی اور سیلاب کے بعد بحالی کے اقدامات نے نویں جائزے کی تکمیل کو روک دیا تھا۔

دریں اثنا محدود بیرونی فنانسنگ کے درمیان قرض کی ادائیگی نے زرمبادلہ کے ذخائر کو کم ترین سطح تک پہنچا دیا اور مالی اہداف چھوٹنے لگے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری میں ماحولیاتی کانفرنس کے بعد اہم پالیسیوں پر مفاہمت طے پائی، تاہم پالیسی میں جھول اور بڑھتے ہوئے مالیاتی فرق کے ساتھ ساتویں اور آٹھویں مشترکہ جائزوں کے لیے مالی اعانت کی عدم تقسیم سے جائزہ مکمل نہیں کیا جا سکا۔

لیکن یہ وہ وقت تھا جب اسحٰق ڈار جیو پولیٹیکل وجوہات کی بنا پر آئی ایم ایف پر زیادہ بیرونی مالیاتی فرق کے حوالے سے اپنی پوزیشن بڑھانے کا الزام لگا رہے تھے، مئی-جون میں آئی ایم ایف کے مطابق ای ایف ایف کے بقیہ جائزوں کی تکمیل پر بات چیت دوبارہ شروع ہوئی، تاہم وقت کی رکاوٹوں نے جائزے سے روک دیا اور ای ایف ایف کی میعاد 30 جون 2023 کو ختم ہو گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں