قومی ترقی میں خلائی ٹیکنالوجی کا کردار

04 مارچ 2016
پاکستان امریکی مدد سے خلاء میں راکٹ بھیجنے والا ایشیا کا پہلا ملک تھا مگر آج ہم اس شعبے میں ہندوستان سے بہت پیچھے ہیں۔ — خاکہ محمد عامر پٹنی۔
پاکستان امریکی مدد سے خلاء میں راکٹ بھیجنے والا ایشیا کا پہلا ملک تھا مگر آج ہم اس شعبے میں ہندوستان سے بہت پیچھے ہیں۔ — خاکہ محمد عامر پٹنی۔

قومی ترقی میں منصوبہ بندی کی اہمیت ایک روشن چراغ سی ہے۔ مستقبل قریب میں قومی ضروریات کی نشاندہی اور ان کا حصول بہترین منصوبہ بندی سے ہی ممکن ہے، جبکہ بہترین منصوبہ بندی کے لیے مستند معلومات تک رسائی انتہائی ضروری ہے۔

اگرچہ مستند معلومات کا حصول نہایت صبر آزما اور کٹھن مرحلہ ہے لیکن اس کے ثمرات سے کئی دہائیوں تک خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، جس کی ایک مثال مردم شماری ہے۔

فی زمانہ مستند معلومات کے حصول کے ساتھ ساتھ اس سے منسلک جگہ کا تعین بھی ناگزیر ہے۔ فرض کریں صوبائی حکومت کو کسی تحصیل میں سڑک کی تعمیرکی منصوبہ بندی کرنی ہے تاکہ منڈیوں تک اجناس کی فراہمی کو آسان اور مؤثر بنایا جا سکے۔

اس کام کے لیے ضروری ہے کہ حقیقی معلومات کی بنیاد پر منصوبہ بندی کی جائے۔ مثال کے طور پر ’اس تحصیل میں اجناس کی پیداوار کے علاقوں کی نشاندہی، آبادی کے موجودہ جمگھٹ کی معلومات، پہلے سے موجود سڑکوں کے حالات، دشوار گزار علاقوں کی نشاندہی وغیرہ جیسے عوامل کی معلومات کا حصول اور اس کی بنیاد پر منصوبہ بندی کا عمل ہی حقیقی ترقی کا ضامن ہوسکتا ہے۔

جغرافیائی نظام بنیادی طور پر تین عوامل کا مربوط نظام ہے، جس میں کرہء ارض پر جگہ کے تعین کا نظام (Global Positioning System)، مصنوعی سیاروں سے زمینی معلومات کا حصول (Satellite Remote Sensing) اور جغرافیائی معلومات کا نظام (Geographical Information System) شامل ہیں۔

پڑھیے: سپارکو اور گلوبل نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم ٹیکنالوجی

امریکا، روس، چین اور ہندوستان نے اپنے مصنوعی سیارے خلاء میں چھوڑ رکھے ہیں جن کی مدد سے کرہء ارض پر جگہ کے تعین کا نظام قابل عمل بنتا ہے۔ بحری اور ہوائی جہازوں اور زمین پر چلنے والے انسانوں کی جگہ کا تعین اسی نظام کی مرہون منت ہے۔

مصنوعی خلائی سیاروں کی مدد سے زمین اور اس کے ماحول کی معلومات کا حصول قومی ترقی اور منصوبہ بندی میں نہایت کارگر ہے۔ گلیشیئر اور جنگلات کے کٹاؤ اور ان کے رقبے میں کمی کو اس نظام کے ذریعے جانچا جا سکتا ہے اور ان کا موازنہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے کیا جا سکتا ہے۔

فضا میں کاربن اور دوسری گیسوں کی مقدار میں اضافے، اس کے انسانی زندگی پر اثرات اور اس کی بڑھوتری کے اسباب کو اس نظام سے پرکھا جا سکتا ہے۔ زمین کی ہئیت، اس میں پنہاں خزانوں تک رسائی، اور اس میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے متعلق معلومات کا حصول بھی اس نظام کی بدولت ممکن ہے۔

2005 کے زلزلے میں دور دراز کے دیہاتوں میں تباہی کا اندازہ مصنوعی سیاروں سے حاصل شدہ تصاویر کی مدد سے ممکن ہو سکا تھا۔ ملک کے طول و عرض میں تکمیل پانے والے منصوبوں کی حکمت عملی کسی حد تک وہاں رسائی کے بغیر بھی ممکن ہو سکتی ہے۔ قدرتی وسائل اور فصلوں کی موجودگی کا اندازہ اور درست پیمائش بھی اس نظام ک ذریعے مرتب کی جا سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں خاطر خواہ منصوبہ بندی کر کے قومی اہداف کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

جغرافیائی معلومات کا نظام منصوبہ بندی کا ایک قابل عمل جزو ہے۔ مصنوعی سیاروں سے حاصل شدہ معلومات کو جغرافیائی معلومات کے نظام کے ساتھ مربوط انداز میں استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے بہترین منصوبہ بندی کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ فرض کریں کہ کسی جگہ پر پانی کے ذخیرے کے لیے جگہ کا انتخاب عمل میں لانا ہے تو اس کے لیے مصنوعی سیاروں سے حاصل شدہ معلومات اورجغرافیائی معلومات کے نظام مل کر موزوں جگہ کا انتخاب دفتر میں بیٹھ کر کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیے: ناسا سیٹلائٹ سے پاکستان میں پانی کا مسئلہ حل؟

اسی طرح دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں نئی سڑک کے لیے موزوں راستے کا انتخاب بھی مربوط جغرافیائی نظام کی بدولت ممکن ہے۔ جدید جنگی منصوبہ بندی، دشمن کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنا اور میزائلوں کی درست جگہ داغے جانے کی صلاحیت بھی اسی نظام کا خاصہ ہے۔

شہری علاقوں کی منصوبہ بندی، زمین کے تنازعات کا حل، غیر قانونی طور مقبوضہ زمین کی شناخت جیسے عوامل کو جغرافیائی نظام کے ذریعے آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ اسمارٹ فون آج کل عام استعمال کی چیز ہے اور اس میں موجود جغرافیائی نظام کی مدد سے شہر کے کسی بھی پتے پر موزوں راستے کا انتخاب کرتے ہوئے آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے۔ امریکی محکمہ لیبر نے 2006 میں جغرافیائی نظام کو تیزی سے ترقی پانے والے چند شعبوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

پاکستان میں الیکشن کمیشن ملکی سطح پر انتخابات کے لیے حلقہ بندی کا کام آبادی کی تقسیم کی بنیاد پر کرتا ہے جبکہ آبادی کی معلومات کا حصول محکمہ شماریات مردم شماری کی بنیاد پر کرتا ہے جو کہ ملک میں 18 سال پہلے کی گئی تھی۔

مردم شماری کے عمل میں مربوط جغرافیائی نظام کا استعمال آبادی کی مستند معلومات کے حصول کو یقینی بناتا ہے اور اس بنیاد پر حلقہ بندیوں اور دوسرے تمام وسائل کی ٹھوس حقائق کی بنیاد پر تقسیم بھی ممکن ہو سکتی ہے جس کی بدولت ملک یکساں انداز میں ترقی کی منازل طے کرنے کے قابل ہو سکے گا۔

صرف اندازوں کی بنیاد پر اہداف کی تیاری اور حصول کو تو محض ایک دیوانے کے خواب سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ مربوط جغرافیائی نظام کو متوقع مردم شماری میں بھرپور انداز میں استعمال کرے تاکہ مستقبل میں بہترین منصوبہ بندی اور قومی ترقی کی راہ ہموار ہو سکے۔

ملکی سطح پر پہلی بار وزارت منصوبہ بندی و قومی ترقی نے جغرافیائی نظام کی مدد سے بنائے گئے نقشوں کے ذریعے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی وضاحت کی ہے اور صوبوں میں وسائل کی مساوی تقسیم کو اس نظام کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ ایک خوش آئند امر ہے۔

الغرض قومی ترقی کی منازل کو جغرافیائی نظام کے بغیر حاصل کرنا فی زمانہ ممکن نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس نظام کی ترقی و ترویج کے لیے مناسب اقدامات کرے۔

مملکت خداداد میں اس نظام کی جڑیں موجود ہیں مگر اس کو تناور درخت بننے کے لیے سنجیدہ کاوشوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے پاس مصنوعی سیاروں کا کوئی نظام موجود نہی سوائے پاک سیٹ 1R کے جو کہ صرف مواصلات کی سہولتیں فراہم کرتا ہے۔

جانیے: میٹرو بس یا مریخ؟ ہماری ترجیحات کیا ہیں

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اس خطے میں امریکی خلائی ادارے کے تعاون سے خلاء میں راکٹ بھیجنے والا پہلا ملک تھا، مگر آج ہم اپنے ہمسائیوں چین اور ہندوستان سے اس میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

ہندوستان خلائی ترقی کی منزلیں طے کرتا چاند اور مریخ تک جا پہنچا ہے اور اب امریکا سمیت کئی مغربی ممالک اپنے سیاروں کو کم خرچ میں خلاء میں بھیجنے کے لیے ہندوستان کی جانب دیکھ رہے ہیں۔

پاکستان میں جغرافیائی نظام کی اہمیت کے پیش نظر اس پر قانون سازی کا عمل 2004 میں مکمل کر لیا گیا تھا جس کی رو سے کوئی بھی فرد یا ادارہ سروے آف پاکستان کی اجازت کے بغیر جغرافیائی نظام پر کام کرنے کا اہل نہیں۔

اب ایک طرف اسے صرف اور صرف سروے آف پاکستان کی اجازت سے مشروط کردیا گیا ہے، تو دوسری طرف حکومت اس قانون پر عملدرآمد کروانے اور اس شعبے سے منسلک افراد کی مناسب انداز میں حوصلہ افزائی کرنے میں ناکام ہے۔

اس قانون کی رو سے ایک قومی معلومات کے ڈھانچے کا قیام بھی عمل میں لایا جانا ہے، جس کی بدولت ملک میں موجود جغرافیائی معلومات کو ایک جگہ اکٹھا کرنا اور صارفین تک اس کی رسائی ممکن بنانا شامل ہے، مگر اس پر بھی چنداں کوئی ٹھوس نتائج سامنے نہں آئے ہیں۔

اب جبکہ حکومت تقریباً 20 سال بعد مردم شماری کی جانب جا رہی ہے، تو ضروری ہے کہ اس کام میں اب روایتی طریقوں سے کم سے کم مدد لی جائے، اور ٹیکنولاجی پر زیادہ سے زیادہ انحصار کیا جائے، تاکہ منصوبہ بندی کا عمل بہتر اور مزید مؤثر بنایا جا سکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

irfan Mar 05, 2016 01:41am
کرپشن میں ستاروں سے بھی آگے نکل گیے ہیں لہذا اب سیٹلائٹ سسٹم ٹیکنالوجی کی کیا ضرورت ہے۔۔۔