افغان مذاکرات کا اگلا دور 5 جنوری کو دوحہ میں شروع ہوگا

اپ ڈیٹ 28 دسمبر 2020
جب مذاکرات نازک مرحلے میں داخل ہوں تو بات چیت کرنے والے فریقین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ الزام تراشی سے دور رہیں، پاکستان کا موقف - فائل فوٹو:رائٹرز
جب مذاکرات نازک مرحلے میں داخل ہوں تو بات چیت کرنے والے فریقین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ الزام تراشی سے دور رہیں، پاکستان کا موقف - فائل فوٹو:رائٹرز

کابل: افغان صدر اشرف غنی کے افغان امن مذاکرات کو وطن منتقل کیے جانے کے حالیہ مطالبے کے باوجود طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور آئندہ ماہ سے قطر میں ہوگا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امن مذاکرات 12 ستمبر کو دوحہ کے ایک پرتعیش ہوٹل میں شروع ہوئے تھے تاہم اِس وقت یہ مذاکرات 5 جنوری تک تعطل کا شکار ہیں۔

ملک میں امن عمل کی قیادت کرنے والے افغانستان کے قومی کونسل برائے قومی مفاہمت کے ترجمان فریدون خوازون کا کہنا تھا کہ 'مذاکرات کا دوسرا دور 5 جنوری کو دوحہ میں شروع ہوگا'۔

مزید پڑھیں: افغان حکومت اور طالبان مذاکرات میں اہم پیشرفت، ابتدائی معاہدے کا اعلان

انہوں نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ 'کونسل کی قائدانہ کمیٹی نے دوحہ میں بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس سے قبل بہت سارے ممالک نے رضاکارانہ طور پر مذاکرات کی میزبانی کے لیے رضامندی ظاہر کی تھی تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے انہوں نے اپنی پیش کش واپس لے لی'۔

ادھر امن عمل میں 'حوصلہ افزا پیش رفت' کے ساتھ ہی پاکستان نے افغانستان میں پائیدار امن کے لیے اپنے پختہ عزم کا اعادہ کیا اور دونوں فریقین سے 'الزام تراشی سے بچنے اور دانشمندی کا مظاہرہ کرنے' پر زور دیا۔

دوسری جانب افغان ایوان صدر نے ایک ٹوئٹ میں بیان دیا کہ صدر اشرف غنی اور قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبد اللہ نے اتوار کے روز ایک ملاقات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں نے 'مذاکرات کے اگلے دور کے مقام پر تبادلہ خیال کیا' جس کے بعد اشرف غنی نے طالبان سے مذاکرات کے دوسرے مرحلے پر حکومت کی حمایت کا اعلان کیا۔

واضح رہے کہ دسمبر کے آغاز میں دونوں فریقین کے مذاکرات کاروں نے کئی ماہ کی مایوس کن ملاقاتوں کے بعد وقفہ لینے کا فیصلہ کیا تھا جو مذہبی تشریحات کے بنیادی ڈھانچے پر تنازعات تلے دبے ہوئی تھیں۔

پاکستان کا مؤقف

ادھر اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے 'جہاں افغان معاشرے اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف اور تعریف کی جارہی ہے وہیں ہمیں چند منفی تبصروں پر تشویش ہے جو افغانستان کے چند عہدیداروں اور غیر سرکاری حلقوں کی طرف سے سامنے آرہی ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت اور طالبان مذاکرات میں اہم پیشرفت، ابتدائی معاہدے کا اعلان

انہوں نے کہا کہ پاکستان باہمی اتفاق رائے کے بنیادی اصول کہ سلامتی اور انٹیلیجنس امور سمیت تمام باہمی امور کو متعلقہ دوطرفہ فورمز اور چینلز کے ذریعے حل کیا جائے پر زور دیتا رہے گا۔

ترجمان نے کہا کہ امن و یکجہتی کے لیے افغانستان۔پاکستان ایکشن پلان کے متعلقہ ورکنگ گروپس اس طرح کی گفتگو کے لیے مناسب ادارہ جاتی فورم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب مذاکرات نازک مرحلے میں داخل ہوتے ہیں تو بات چیت کرنے والے فریقین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ الزام تراشی سے دور رہیں اور افغانستان میں دیرپا امن و استحکام کے حصول کے وسیع مقصد کے لیے دانشمندی کا مظاہرہ کریں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افغان حکومت کی داخلی سلامتی، امن و امان اور افغان جانوں کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داری کو نبھانے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت کو واضح کرنا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'پاکستان مؤثر ادارہ جاتی تعاون کے ذریعے سلامتی اور موثر بارڈر مینجمنٹ کے شعبے میں ہر ممکن تعاون کو بڑھانے کے لیے تیار ہے'۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان حال ہی میں دوطرفہ تعلقات میں مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے جس میں اہم دوطرفہ امور اور افغانستان-پاکستان ٹرانزٹ تجارتی معاہدے پر نظر ثانی شامل ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں