افغان طالبان کے وفد کی بین الافغان مذاکرات کے حوالے سے بات چیت کیلئے اسلام آباد آمد

اپ ڈیٹ 25 اگست 2020
قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ڈائریکٹر ملا برادر کی سربراہی میں یہ وفد وزارت خارجہ کی دعوت پر پاکستان آیا ہے۔ نوید صدیقی:فائل فوٹو
قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ڈائریکٹر ملا برادر کی سربراہی میں یہ وفد وزارت خارجہ کی دعوت پر پاکستان آیا ہے۔ نوید صدیقی:فائل فوٹو

اسلام آباد: قطر میں قائم افغان طالبان کے سیاسی دفتر کا وفد بین الافغان مذاکرات میں درپیش سے متعلو رکاوٹوں پر بات چیت کے لیے پاکستان پہنچ گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیاسی دفتر کے ڈائریکٹر اور سیاسی امور کے ذمہ دار طالبان کے نائب امیر ملا برادر اس وفد کی قیادت کر رہے ہیں، جو وزارت خارجہ کی دعوت پر یہاں موجود ہے۔

افغان امن عمل میں سہولت فراہم کرنے کی امریکی درخواست پر 2018 میں آزاد ہونے سے قبل ملا برادر نے پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں تقریباً 8 سال گزارے ہیں۔

مزید پڑھیں: مائیک پومپیو کا افغان طالبان سے امن عمل پر تبادلہ خیال

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ یہ وفد (آج) منگل کو باضابطہ مذاکرات کے لیے دفتر خارجہ کا دورہ کرے گا۔

تاہم انہوں نے وفد کے یہاں قیام کے ایام اور دیگر مصروفیات کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔

یہ طالبان کے سیاسی وفد کا پاکستان کا دوسرا دورہ ہے، اس سے قبل انہوں نے اکتوبر 2019 میں اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔

شاہ محمود قریشی نے یاد دلایا کہ آخری دورے نے فروری 2020 میں امریکی طالبان معاہدے پر حتمی دستخط کرنے میں کس طرح مدد فراہم کی تھی اور کہا کہ اس وفد کو دوبارہ اس اُمید کے ساتھ مدعو کیا گیا ہے کہ انٹرا افغان مذاکرات میں پائی جانے والی پیچیدگیوں کا ازالہ کیا جاسکتا ہے اور امکان ہے کہ یہ عمل جلد شروع ہوگا۔

چونکہ دونوں طرف سے قیدیوں کا تبادلہ انٹرا افغان مذاکرات کے آغاز کے لیے سب سے اہم شرط تھی جو دوحہ میں امریکی طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے پر دستخط کے تحت اصل میں 10 مارچ تک ہونی تھی تاہم قیدیوں کی رہائی میں تاخیر بات چیت کے آغاز کو روکنے کی سب سے اہم وجہ رہی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کا افغانستان پر طالبان کے ساتھ جلد از جلد امن قائم کرنے پر زور

طالبان نے دعوی کیا کہ انہوں نے اپنے وعدے کے مطابق تمام ایک ہزار افغان سیکیورٹی فورسز کو رہا کردیا ہے جبکہ کابل نے ان 5 ہزار افراد میں سے اب بھی 320 قیدیوں کو آزاد کرنا ہے۔

افغان حکومت نے آخر کار ان 400 قیدیوں کی رہائی کے لیے رضامندی حاصل کرلی ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ سنگین جرائم میں سزا یافتہ ہیں۔

اب تک ان میں سے صرف 80 کو رہا کیا گیا ہے جبکہ 320 سرکاری تحویل میں ہیں۔

رہائی میں تاخیر سے متعلق تازہ ترین افغان وضاحت یہ ہے کہ طالبان کے پاس بھی ابھی بھی 20 کمانڈوز موجود ہیں جن کی رہائی پر انہوں نے اتفاق کیا تھا۔

قیدیوں کی رہائی کے بارے میں طالبان اور افغان انتظامیہ کے مابین پائے جانے والے اختلافات بین الافغان بات چیت کے آغاز میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

ایک ٹوئٹر پوسٹ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے اعلان کیا کہ پاکستان آنے والا وفد 'افغانستان کے امن عمل میں حالیہ پیشرفت، دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان لوگوں کی نقل و حرکت اور تجارت میں آسانی، پاکستان میں افغان مہاجرین سے متعلق امور اور دیگر متعلقہ امور پر بات چیت کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ 'مثبت تعلقات کو آگے بڑھانے' اور 'امن عمل کے بارے میں دنیا کو اپنے خیالات اور مؤقف کو پہنچانے' کے لیے طالبان کے سیاسی دفتر کے وفود مختلف ممالک کے دورے کرتے رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سفر کورونا وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے ملتوی کردیے گئے تھے لیکن صورتحال بہتر ہونے کے بعد ان کا دوبارہ آغاز کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان چند دیگر ممالک کا بھی دورہ کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں