سندھ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران طبی کیمپوں میں لوگوں کے آنے کا سلسلہ جاری رہا، بیماریوں کے پھیلاؤ کے خطرات اب بھی صوبے میں موجود ہیں اور سانس کی تکلیف میں مبتلا ایک اور بچہ چل بسا۔

صوبائی محکمہ صحت کے مطابق صوبے بھر میں قائم طبی کیمپوں میں تقریبا 71 ہزار 398 افراد علاج کے لیے آئے، جنہوں نے زیادہ تر شکایات پانی سے جنم لینے والی بیماریوں سے متعلق کی جو سیلاب کے بعد اب تک کھڑا ہے۔

صوبائی محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق جو ہزاروں افراد علاج کے لیے آئے ان میں زیادہ تعداد سانس کی شدید تکلیف میں مبتلا افراد کی تھی جو 13 ہزار 989 ظاہر کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب سے ہلاکتوں کی تعداد1600 سے متجاوز، ملک میں خوراک کی قلت نہیں، حکام

اسی طرح 12 ہزار 777 افراد نے اسہال اور 13 ہزار 672 افراد نے جلدی امراض کی شکایت کی، 8 ہزار 515 نے ملیریا کے خدشات کا اظہار کیا جبکہ 415 میں ملیریا اور 33 میں ڈینگی کی تصدیق ہوئی، دیگر 22 ہزار 413 افراد دیگر بیماریوں میں مبتلا تھے، یکم جولائی سے اب تک مجموعی طور پر 30 لاکھ بے گھر افراد کو طبی امداد دی گئی۔

سندھ میں ملک کے شمال اور بلوچستان کے پہاڑی علاقوں سے سیلاب آیا جس کی وجہ سے صحت کے بحران نے جنم لیا، ہزاروں بے گھر افراد میں ڈینگی اور پانی سے جنم لینے والی بیماریاں دیکھی گئیں۔

دادو سول ہسپتال کے سرجن ڈاکٹر کریم میرانی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ضلع کے تقریباً 5 ہزار افراد کو گزشتہ چند دنوں میں ہسپتال لایا گیا۔

دوسری طرف، نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں سیلاب کی وجہ سے مزید 10 افراد انتقال کر گئے، جس کے بعد جون کے وسط سے اب تک جاں بحق افراد کی تعداد ایک ہزار 606 ہو گئی۔

نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈینیشن سینٹر (این ایف آر سی سی ) نے اپنی روزانہ کی اپڈیٹ میں بتایا کہ سیلاب سے شدید متاثرہ اضلاع میں قمبر شہداد کوٹ، جیکب آباد، لاڑکانہ، خیرپور، دادو، نوشہرو فیروز، ٹھٹہ اور بدن شامل ہیں۔

جبکہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں کوئٹہ، نصیر آباد، جعفر آباد، جھل مگسی، بولان، صحبت پور، لسبیلہ، دیر، سوات، چارسدہ، کوہستان، ٹانک اور ڈیرہ اسمعٰیل خان میں زیادہ نقصانات ریکارڈ کیے گئے۔

مزید پڑھیں: امدادی کوششوں میں شفافیت یقینی بنانے کیلئے 'ڈیجیٹل فلڈ ڈیش بورڈ' قائم

این ایف آر سی سی نے بتایا کہ پاکستانی فوج کی جانب سے ان تمام متاثرہ علاقوں میں ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

اس میں بتایا گیا کہ سیلاب متاثرین کے لیے سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں اب تک 147 ریلیف کیمپس اور 235 ریلیف کلکشن پوائنٹس قائم کیے گئے ہیں۔

مزید بتایا گیا کہ اب تک 300 طبی کمیپس بھی قائم کیے گئے ہیں، ان میں 5 لاکھ 65 ہزار 359 مریضوں کا علاج کیا گیا اور فری ادویات بھی دی گئیں۔

سندھ میں پانی کی سطح

دادو کے اسسٹنٹ کمشنر سونو خان چانڈیو نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ اب بھی ضلع میں اور قریبی علاقوں جیسا کہ مہر اور خیرپور ناتھن شاہ میں پانی کی سطح 6 فٹ ہے۔

قبل ازیں، ڈان نے رپورٹ کیا تھا کہ ضلعی انتظامیہ اور مزدوروں نے مایوس مقامی رہائشیوں کی مدد سے جوہی برانچ میں کالی موری کے مقام پر شگاف کو چوڑا کیا۔

31 اگست کو ٹاؤن میں خوفناک صورتحال پیدا ہوئی جب گوزو کے قریب سپریو بند میں شگاف کے بعد سیلاب آیا، جو خیرپور ناتھن شاہ کا چھوٹا علاقہ ہے، گوزو بھی شدید سیلاب کی زد میں آیا۔

آبپاشی کے انجنیئر مہیش کمار نے بتایا کہ منچھر جھیل میں بھی پانی کی سطح میں نمایاں کمی ہوئی، پانی کی سطح 119.75 فٹ رہی جو خطرناک سطح سے 3 فٹ کم ریکارڈ کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے، انتونیو گوتریس

کالی موری شگاف کو چوڑا کرنے والے خیرپور ناتھن شاہ کے مقامی رہائشیوں کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر خلیل سکندر نے انکشاف کیا کہ تقریبا 3 ہزار مرد، خواتین اور بچے علاقے میں اوپری منزلوں اور چھتوں پر موجود تھے، انہوں نے سیلاب آنے کے بعد اپنے علاقے کو نہیں چھوڑا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں