سیلاب سے ہلاکتوں کی تعداد1600 سے متجاوز، ملک میں خوراک کی قلت نہیں، حکام

حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں غذائیاجناس کی قلت نہیں ہے —فوٹو: اے ایف پی
حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں غذائیاجناس کی قلت نہیں ہے —فوٹو: اے ایف پی

نیشنل فلڈ ریسپانس کوآرڈینیشن سینٹر (این ایف آر سی سی) نے کہا ہے کہ ملک میں غذائی اشیا کی کوئی قلت نہیں ہے جبکہ ملک میں تباہ کن سیلاب سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد اب تک ایک ہزار 600 سے متجاوز کر چکی ہے۔

نیشنل ڈزاسٹر مینجمینٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق ملک میں حالیہ مہینوں میں ہونے والی طویل مون سون بارشیں اوسط سے تین گنا زیادہ ہوئی ہیں جس کی وجہ سے انتہا درجے کا سیلاب آیا اور اس کے نتجیے میں جون سے اب تک ایک ہزار 606 افراد جاں بحق ہوئے جن میں 579 بچے اور 325 خواتین شامل ہیں۔

این ڈی ایم اے نے روزانہ جاری کیے جانے والے اعداد و شمار میں بتایا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 10 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں، جن میں 6 افراد کا تعلق بلوچستان سے ہے جبکہ باقی سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں سے ہیں۔

مزید پڑھیں: امدادی کوششوں میں شفافیت یقینی بنانے کیلئے ’ڈیجیٹل فلڈ ڈیش بورڈ قائم

بیان میں کہا گیا کہ ان اعداد و شمار میں وہ افراد شامل نہیں کیے گئے جو سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی بیماریوں میں جاں بحق ہوئے۔

سیلاب کی زد میں آنے والے لاکھوں بے گھر افراد تاحال کھلے آسمان تلے سڑکوں پر بیٹھے ہیں جہاں سیکڑوں کلومیٹر پر سیلابی پانی کی سطح کم ہونا شروع ہوئی ہے۔

اس آفت نے نہ صرف مکانات اور سڑکیں تباہ کر دی ہیں بلکہ لاکھوں ایکڑ پر پھیلی فصلیں بھی تباہ کر دی ہیں جس کے نتیجے میں خوراک کی قلت کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

این ایف آر سی سی نے اپنے تازہ بیان میں کہا کہ اگلے 6 مہینوں کے لیے گندم کا بہت بڑا ذخیرہ دستیاب ہے اس کے ساتھ اسٹریٹجک ذخیرہ بھی ہے جو اگلی کٹائی کے سیزن تک کافی ہے۔

این ایف آر سی سی نے کہا کہ 20 لاکھ ٹن کے اسٹریٹجک ذخائر کے علاوہ، 18 لاکھ ٹن کے اضافی اسٹاک کی درآمد جاری ہے، جس میں سے 6 لاکھ ٹن تک اسٹاک ملک میں پہنچ چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں 6 ماہ کیلئے خوراک کا وافر ذخیرہ موجود ہے، وزارت خوراک

این ایف آر سی سی نے بعض فصلوں اور خوراک کے خراب ذخائر سے متعلق بھی آگاہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے سال ٹماٹر کی بہت زیادہ فصل کاشت کی گئی تھی جو کہ ملک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی تھ، اسی طرح 75 لاکھ ٹن آلو کی پیداوار ہوئی جبکہ مجموعی ضرورت 42 لاکھ ٹن تھی۔

بیان میں کہا گیا کہ ایران اور افغانستان سے ٹماٹر اور پیاز کی درآمد زیر عمل ہے اس صورتحال میں حکومت نے تمام ڈیوٹی ٹیکس ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

این ایف آر سی سی کا کہنا ہے کہ ملک میں چاول کی ضروریات کو موجودہ ذخائرہ کے ذریعے آسانی سے رواں برس دسمبر تک پورا کیا جا سکتا ہے جبکہ فصل کی اگلی اگائی کی موسم اکتوبر میں شروع ہوگی۔

این ایف آر سی نے کہا کہ ملک میں خوراک اور غذائی اشیا کا کافی ذخیرہ ہے اور صلاحیت کو مزید بڑھانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔

دوسری جانب وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک میں گندم کی کاشت وقت پر نہ ہوئی تو ممکن ہے گندم درآمد کرنی پڑے۔

مزید پڑھیں: پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے، انتونیو گوتریس

’زرعی قرضوں کی وصولی مؤخر‘

درین اثنا، وفاقی وزیر برائے آبی وسائل خورشید شاہ نے کہا کہ کسانوں سے زرعی قرض کی ادائیگیاں مؤخر کرنے کے لیے وہ وزیر اعظم سے بات کریں گے۔

بعدازاں، وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے بھی اس بات پر زور دیا اور کہا کہ کسانوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

شرجیل انعام میمن نے کہا کہ کسانوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے سندھ حکومت نے اگلے سال کی فصل کے لیے گندم کی امدادی قیمت 4 ہزار روپے فی من مقرر کی ہے اسی طرح کسان اگلے سال کی فصل کی بوائی دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔

’سندھ میں بیماریوں کا پھیلاؤ‘

ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسزسندھ کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں طبی کیمپوں پر 79 ہزار 556 مریض لائے گئے، جن میں سے 14 ہزار 653 مریضوں کو اسہال کی بیماری، 14 ہزار 364 کو جلد کی بیماریاں، 796 مریضوں کو ملیریا اور 55 افراد میں ڈینگی بخار تشخیص ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب زدگان کیلئے امدادی سامان لے کر اقوام متحدہ کی 2 پروازیں کراچی پہنچ گئیں

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں 4 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں، جبکہ یکم جولائی سے اب تک طبی کیمپوں میں 29 لاکھ افراد کا طبی معائنہ اور علاج کیا گیا۔

دریں اثنا، آج کے اجلاس میں سندھ کے چیف سیکریٹری محمد سہیل راجپوت نے کہا کہ سندھ میں سیلاب متاثرین میں کھڑے پانی سے ملیریا، گیسٹرو اور دیگر بیماریوں کا خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے حکومت سندھ کے لیے 6 ارب روپے کی ادویات خریدنے کی منظوری دی ہے جبکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزشن کی طرف سے ملیریا اور ڈینگی کی کٹس بھی فراہم کی گئی ہیں۔

سہیل راجپوت نے کہا کہ ہم نے صوبے میں مزید 2500 ڈاکٹر بھرتی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جو سیلاب زدہ علاقوں میں خدمات سرانجام دیں گے۔

’دریائے سندھ میں پانی کی سطح‘

چیف سیکریٹری سندھ نے کہا کہ منچھر جھیل میں پانی کی سطح 119 فٹ تک کم ہوگئی ہے جبکہ دادو اور جامشورو میں پانی کی نکاسی کے لیے کام جاری ہے۔

پانی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر شرجیل میمن نے کہا کہ دریائے سندھ کے دو بیراجوں میں پانی کی سطح ایک لاکھ کیوسک سے نیچے ہو گئی ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ میں گندم کی امدادی قیمت 4 ہزار روپے فی من مقرر کرنے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ گڈو بیراج پر پانی کی آمد 87 ہزار 300 کیوسک اور اخراج 76 ہزار کیوسک جبکہ سکھر بیراج پر پانی کی آمد 92 ہزار 200 کیوسک اور اخراج 82 ہزار کیوسک ہے۔

شرجیل میمن نے کہا کہ کوٹری بیراج میں پانی کی آمد 2 لاکھ 3100 کیوسک جبکہ پانی کا اخراج ایک لاکھ 99 ہزار 300 کیوسک ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جن علاقوں سے پانی کی نکاسی ہو رہی ہے ان علاقوں میں متاثرین واپس جا رہے ہیں۔

’اسلام آباد اور پنجاب میں بارش کا امکان‘

پنجاب پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے کہا ہے کہ محکمہ موسمیات نے دریائے ستلج کے بالائی علاقوں میں موسلا دھار بارش کی پیش گوئی کی ہے۔

پی ڈی ایم اے نے کہا کہ اسلام آباد، راولپنڈی، سرگودھا، گجرانوالا، لاہور، فیصل آباد اور ساہیوال ڈویژن کے ساتھ دریائے سندھ، جہلم، چناب اور راوی کے بالائی علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارش کا امکان ہے۔

مزید پڑھیں: قرض دہندگان کو پاکستان کے قرضوں کی ادائيگياں معطل کردينی چاہئیں، اقوام متحدہ

پی ڈی ایم اے نے خبردار کیا ہے کہ بارش کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

پی ڈی ایم اے نے ان علاقوں کے قریب رہنے والے لوگوں کے لیے احتیاطی تدابیر بھی جاری کی ہیں اور انتظامیہ کو محفوظ مقامات اور ریلیف کیمپ تیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

محکمہ صحت کی جانب سے متاثرین کو ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کے لیے ہیلتھ ٹیموں کو متحرک کرنے کی ہدایت دی گئی ہے اور بارش سے ہونے والی بیماریوں سے بچنے کے لیے مخصوص مقامات پر طبی اسپرے یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں