سندھ بھرمیں طبی عملے کی ہڑتال کے باعث ہسپتال میں 3 مریض جاں بحق

اپ ڈیٹ 09 نومبر 2022
احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے باعث شدید ٹریفک جام ہوگیا—فوٹو: شکیل عادل/فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار/آن لائن
احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے باعث شدید ٹریفک جام ہوگیا—فوٹو: شکیل عادل/فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار/آن لائن

سندھ حکومت کی جانب سے ہیلتھ رسک الاؤنس بند کرنے پر گرینڈ ہیلتھ الائنس کی کال پر ڈاکٹرز، پیرا میڈیکس اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کی جانب سے ڈیوٹیوں کے جاری بائیکاٹ کے باعث نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ میں تین مریض دم توڑ گئے۔

دوسری جانب پولیس نے وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب احتجاج کرنے والے ہزاروں پیرا میڈیکس اور نرسوں کو حراست میں لے لیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے ڈاکٹر ضیاالدین احمد روڈ اور وزیراعلیٰ ہاؤس کی طرف جانے والی سڑکیں بند کردیں جس کے نتیجے میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے باعث شدید ٹریفک جام ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ: ہیلتھ رسک الاؤنس کیلئے ڈاکٹروں، طبی عملے کا ہسپتالوں کی او پی ڈیز کا بائیکاٹ

ذرائع کے مطابق گرینڈ ہیلتھ الائنس کے تحت ہزاروں میڈیکل ورکرز کراچی پریس کلب کے باہر جمع ہوئے اور اپنے مطالبات کے لیے نعرے لگائے، بعدازاں مظاہرین نے سندھ سیکریٹریٹ میں دھرنا دے دیا۔

ایس ایس پی جنوبی سید اسد رضا نے بتایا کہ جب احتجاجی مظاہرین نے وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب بڑھنے کی کوشش کی تو پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی تھی۔’

پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 5 خواتین نرسز سمیت 15 احتجاجی مظاہرین کو حراست میں لے لیا جنہیں بعد میں رہا کردیا گیا جبکہ 10 مرد مظاہرین کو جلد رہا کردیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سینئر طبی حکام گرینڈ ہیلتھ الائنس (جی ایچ اے) کے مظاہرین کے ساتھ مذکرات کررہے تھے۔

دوسری جانب جی ایچ اے کے نمائندہ ینگ ڈاکٹرایسوسی ایشن کے ڈاکٹر فیضان میمن کا کہنا ہے کہ سرکاری حکام کے ساتھ مذاکرات میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوسکی۔

مزید پڑھیں: ہمارے مسیحاؤں کی داد رسی کون کرے گا؟

انہوں نے کہا کہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے ینگ ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس احتجاج کررہے ہیں لیکن حکومت نے ہمارے مطالبات کو تسلیم کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی، اسی دوران حکومت نے سندھ کابینہ کے دو اجلاس بلائے تھے، ان اجلاسوں میں بھی ہمارے مطالبات پر کوئی بات نہیں کی گئی۔

ڈاکٹر فیضان میمن نے کہا کہ ان کا بنیادی مطالبہ کووڈ 19 رسک الاؤنس سے متعلق تھا جسے حکومت نے گزشتہ ماہ سے روک دیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ دوسرا مطالبہ دانتوں کے ڈاکٹر کے لیے اسامیوں میں اضافے سے متعلق تھا، اس حقیقت کے باوجود کہ 5 ہزار دانتوں کے ڈاکٹر بے روزگار ہیں، گزشتہ 15 برسوں میں سندھ حکومت نے دانتوں کے ڈاکٹر کے لیے ایک بھی آسامی کا اعلان نہیں کیا۔

ڈاکٹر فیضان کا کہنا تھا کہ مظاہرین یہ بھی مطالبہ کررہے ہیں کہ سروس اسٹرکچر اور پروموشن پالیسی میں بہتری لائی جائے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ میں 3 مریض جاں بحق

گزشتہ ایک ماہ سے سندھ میں طبی عملے کے احتجاج کی وجہ سے غریب مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (این آئی سی ایچ) میں صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔

یہ ادارہ کراچی میں بچوں کے لیے تیسرا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال ہے جو پورے سندھ کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے مریضوں کی دیکھ بھال کرتا ہے، 8 نومبر کو طبی عملے کی ہڑتال اور عملہ نہ ہونے کی وجہ سے 3 بچے جاں بحق ہو گئے تھے۔

مزید پڑھیں: طبی عملے کا مسلسل پانچویں روز احتجاج، سندھ بھر میں او پی ڈیز بند

این آئی سی ایچ کے حکام نے بتایا کہ ہم مریضوں کی موت کی ذمہ داری طبی عملے پر عائد نہیں کرسکتے لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ روز سے تمام حکومتی عملہ ہڑتال پر ہے، دوسری جانب ہمارے پاس نجی عملہ بہت محدود ہے جس کی وجہ سے مریضوں کی دیکھ بھال میں ہمیں کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

جاں بحق مریضوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں زیر علاج دو مریض جاں بحق ہوئے، اس کے علاوہ ایک مریض انتہائی تشویش ناک حالت میں ایمرجنسی سیکشن میں لایا گیا جسے ہم نہیں بچا سکے۔

انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں طبی عملہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم ایمرجنسی یا انتہائی نازک حالت کا شکار مریضوں کا علاج کررہے ہیں اور انہیں دوسرے ہسپتال میں ریفر کررہے ہیں جبکہ ہسپتال میں پہلے سے موجود مریضوں کی صحتیابی کے بعد انہیں ڈسچارج کررہے ہیں۔

لیڈی ہیلتھ ورکرز کا احتجاج اور حکومت کی خاموشی

ذرائع کے مطابق پبلک سیکٹر ہسپتال میں ہیلتھ کیئر ورکرز کے احتجاج اور ہڑتال کے بعد حکومت کی خاموشی انتہائی شرمناک ہے، حکومت اور احتجاجی مظاہرین کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت سندھ کی جانب سے کورونا سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات

7 نومبرکو سکھر میں موجود غلام محمد مہر میڈیکل کالج ہسپتال کے طبی افسر نے اپنی ذمہ داری سرانجام دینے سے انکار کردیا تھا اور ہیڈکوارٹر کی اجازت کے بغیر شہر چھوڑ کر چلے گئے تھے، سندھ حکومت نے انہیں کوئی سزا نہیں سنائی جبکہ دوسری جانب حکومت نے جیکب آباد میں نگراں لیڈی ہیلتھ ورکر کو معطل کردیا۔

دوسرا نوٹیفکیشن ’غیر قانونی ہڑتال یا دیکھ بھال فراہم کرنے سے انکار‘ کے معاملے میں عدالتی حکم کے پیش نظرنوٹس جاری کیا گیا۔

اس کے علاوہ لاڑکانہ میں بھی لیڈی ہیلتھ ورکرز کی جانب سے ہڑتال کی گئی اور مظاہرین مقامی پریس کلب کے باہر جمع ہوئے۔

مظاہرین نے بشریٰ آرائیں کی معطلی اور رسک الاؤنس میں کٹوتی کے خلاف احتجاج کیا۔

انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ سندھ اور وزیر صحت سے رسک الاؤنس کی بحالی کے حوالے سے نوٹیفکشن جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔

مزید پڑھیں: سندھ: ڈاکٹر، ہیلتھ ورکرز کا احتجاج، انسداد پولیو مہم شدید متاثر

محکمہ صحت نے گزشتہ ماہ کورونا کے کیسز میں کمی کے باعث کووِڈ 19 رسک الاؤنس واپس لے لیا تھا۔

ملک میں کورونا وبا کے دوران سندھ حکومت کی جانب سے 2 سال کے لیے رسک الاؤنس کا اعلان کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ گریڈ ایک سے 16 کے درمیان طبی عملہ کو 17 ہزار جبکہ گریڈ 16 سے اوپر والے افراد کو 35 ہزار دیے جائیں گے، سال 2020 میں یہ رسک الاؤنس بند کردیا گیا تھا لیکن اس وقت طبی عملے کے احتجاج کے بعد دوبارہ بحال کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں