لاہور ہائیکورٹ کے جج کے بیٹے کیلئے پروٹوکول کی درخواست شدید تنقید کے بعد واپس لے لی گئی

اپ ڈیٹ 08 اکتوبر 2023
یہ قابل اعتراض خط گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے واپس لے لیا — فائل فوٹو: اے ایف پی
یہ قابل اعتراض خط گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے واپس لے لیا — فائل فوٹو: اے ایف پی

قانونی برادری نے گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے وزارت خارجہ کو لکھے گئے خط پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا جس میں ایک حاضر سروس جج کے بیٹے کو متحدہ عرب امارات اور امریکا کے بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر پروٹوکول دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خط مورخہ 6 اکتوبر (جمعہ) کو لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ کے سینئر ایڈیشنل رجسٹرار محمد ارم ایاز نے سیکریٹری خارجہ کو لکھا تھا، خط میں جسٹس علی باقر نجفی کی جانب سے ابوظبی اور جان ایف کینیڈی (نیویارک) انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اپنے بیٹے سید محمد علی کے خصوصی پروٹوکول کی خواہش کا عندیہ دیا گیا تھا۔

یہ پیغام متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر اور نیویارک میں قونصل جنرل کو بھی بھیجا گیا۔

خط میں لکھا گیا کہ میں بہت مشکور ہوں گا اگر متحدہ عرب امارات میں ابوظبی انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور امریکی شہر نیویارک میں واقع جان ایف کینیڈی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پروٹوکول کی سہولیات کے ساتھ ساتھ فوری امیگریشن سروس اور جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ سے 32 گارڈن اسٹریٹ نیو ہیون سی ٹی 065611 کے پتے تک لے جانے کے لیے سواری سمیت دیگر پروٹوکول سہولیات اوپر دیے گئے شیڈول کے مطابق برائے مہربانی جسٹس علی باقر نجفی کے بیٹے سید محمد علی کو فراہم کی جائیں۔

یہ قابل اعتراض خط گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے واپس لے لیا، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایل ایچ سی بی اے) کے نمائندوں نے جج کی خواہش پر تنقید کی۔

سینئر ایڈیشنل رجسٹرار کی جانب سے لکھے گئے ایک تازہ خط میں کہا گیا ہے کہ مجاز اتھارٹی کے مطابق زیر بحث خط واپس لیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں کسی کارروائی کی ضرورت نہیں ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ وزارت خارجہ کی جانب سے پہلے ہی ملک سے باہر ہوائی اڈوں پر مطلوبہ پروٹوکول سہولیات فراہم کرنے سے معذوری کا اظہار کیا جا چکا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے ایک عہدیدار نے ہائی کورٹ کی ایڈمنسٹریشن کمیٹی کی جانب سے منظور شدہ پالیسی کے بارے میں 2017 کے سرکلر کا حوالہ دیا، اس پالیسی میں ججز اور ان کے قریبی خاندان کے افراد بشمول بیویوں، بچوں اور والدین کے لیے ہوائی اڈوں، ڈائیوو بس اڈے، ہسپتالوں، نادرا دفاتر، ویزا مقاصد کے لیے سفارت خانوں، پاسپورٹ دفاتر اور وزارتوں میں پروٹوکول کی سہولیات کا تعین کیا گیا ہے۔

تاہم عہدیدار یہ واضح نہ کر سکے کہ آیا یہ پروٹوکول پالیسی پاکستان سے باہر کے ہوائی اڈوں کا بھی احاطہ کرتی ہے یا نہیں۔

لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نائب صدر ربیعہ باجوہ نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے خط پر مایوسی کا اظہار کیا اور سینئر جج کی درخواست کو ناقابل قبول قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے رویے سے پاکستانیوں کے لیے دنیا بھر میں شرمندگی ہوئی، اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کو عاجزی کے ساتھ عوام کی خدمت کرنی چاہیے کیونکہ انہیں سرکاری خزانے سے ادائیگی کی جاتی ہے۔

ربیعہ باجوہ نے لاہور ہائی کورٹ انتظامیہ کمیٹی کے ججوں کی جانب سے ذاتی مقصد کے لیے اندرونی طور پر بنائی گئی ’پروٹوکول پالیسی‘ کے جواز پر بھی سوال اٹھایا۔

لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سیکریٹری صباحت رضوی نے کہا کہ ایک ایسے سینئر جج کے بیٹے کے پروٹوکول کے لیے ہائی کورٹ کی جانب سے لکھے گئے خط کے بارے میں جان کر حیرانی ہوئی جن کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ججوں کے اہل خانہ کو پروٹوکول دینے کی ہائی کورٹ کی پالیسی غیرقانونی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں