شائع May 11, 2015

تاریخی تعلیمی ادارہ جو بقاءکی جنگ لڑنے میں مصروف

عامر یسین

یہ راستہ انتظامیہ کے دفاتر اور اسکول کی پچھلی جانب لے جاتا ہے۔ کبھی یہ مرکزی داخلی گزرگاہ پچھلی جانب کشادہ باغات کی جانب لے جاتی تھی جہاں اب قبضہ ہوچکا ہے۔
یہ راستہ انتظامیہ کے دفاتر اور اسکول کی پچھلی جانب لے جاتا ہے۔ کبھی یہ مرکزی داخلی گزرگاہ پچھلی جانب کشادہ باغات کی جانب لے جاتی تھی جہاں اب قبضہ ہوچکا ہے۔

ایک زمانے میں بہترین تعلیمی معیار کا مرکز اور راولپنڈی کے رہائشی مسلمانوں کے اتحاد کی علامت سمجھے جانے والا لیاقت باغ کے بالمقابل مری روڈ پر واقع 129 سال پرانا اسلامیہ ہائی اسکول اب اپنی زمین کو قبضہ مافیا سے بچانے اور بہترین تعلیمی معیار کے ادارے کی ساکھ کی بحالی کی جدوجہد کررہا ہے۔

راولپنڈی کی مسلم برادری نے 1885 میں یہ محسوس کیا تھا کہ انہیں ایسے تعلیمی ادارے کی ضرورت ہے جہاں عربی اور اسلامی تعلیم مسلم طالبعلموں کو فراہم کی جاسکے۔

متعدد مسلم فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے متحد ہوکر شہر کے مسلمانوں کے لیے ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی، بوہرہ برادری کے شیخ مامون جی نے اسکول کی تعمیر کے لیے 42 کینال زمین عطیہ کی جبکہ عمارت کی تعمیر کے لیے بھی عطیات جمع کیے گئے۔

کلاس رومز کے سامنے موجود طویل برآمدہ
کلاس رومز کے سامنے موجود طویل برآمدہ

اسکول کے ایک بزرگ استاد اعجاز کھوکھر نے ڈان کو بتایا کہ عطیات کے لیے ایک باکس بری امام کے مزار پر رکھا گیا جہاں پورے برصغیر سے مسلمان آتے تھے۔

ٹھیک ایک سال بعد یعنی 1886 میں اسکول میں کلاسز کا آغاز ہوگیا۔ 1934 میں قائداعظم محمد علی جناح نے اسکول کا دورہ کیا اور گورنمنٹ اسلامیہ ہائی اسکول کے میدان میں ایک عوامی جلسے کا انعقاد کیا، جبکہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت بھی اکثر اسکول کا دورہ کرتی رہتی تھیں۔

اسکول کے پرنسپل کے دفتر کے باہر نصب تاریخی نوٹس بورڈ
اسکول کے پرنسپل کے دفتر کے باہر نصب تاریخی نوٹس بورڈ

یہ اسکول ایک ممتاز تعلیمی ادارے کے طور پر جانا جاتا تھا اور یہاں سے ڈگری لے کر نکلنے والے طالبعلم عملی زندگی میں آکر قابل احترام سیاستدان، ججز، فوجی اور سویلین افسران، ڈاکٹر اور انجنیئرز بن کر ابھرے۔

تاہم گزشتہ تیس برسوں کے دوران یہ تاریخی ادارہ اپنی اہمیت سے محروم ہوتا چلا گیا اور اس کی زندگی کے بیشتر حصے پر قبضہ مافیا قابض ہوگئی۔

ماضی کی یہ شاہکار عمارت آج خستہ حالی کا شکار ہے۔
ماضی کی یہ شاہکار عمارت آج خستہ حالی کا شکار ہے۔

اسکول کی عمارت اب خستہ حال ہے اور اس کے ایک حصے کی چھت منہدم ہوچکی ہے اور مرکزی عمارت کی دیواروں پر دراڑیں پڑی ہوئی ہیں حالانکہ یہاں اب بھی سات سو سے زائد طالبعلم روز کلاسز میں آتے ہیں۔

کچھ برس قبل سابق رکن قومی اسمبلی ملک شکیل اعوان پنجاب حکومت سے کچھ فنڈز لینے میں کامیاب رہے اور اسکول کے احاطے میں ایک نئے بلاک کی تعمیر ہوئی تاہم یہ نئی تعمیرات اسکول میں بڑھتے طالبعلموں کی تعداد کے لیے کافی ثابت نہیں ہوئی۔

یہ کلاس روم گزشتہ چھ سال سے بند ہے جس کی وجہ ایک حصے کی چھت کا منہدم ہونا اور عمارت کو خطرناک قرار دیا جانا تھا۔ اسکول انتظامیہ کی متعدد درخواستوں کے باوجود حکومت کی جانب سے عمارت کی مرمت پر توجہ نہیں دی گئی۔
یہ کلاس روم گزشتہ چھ سال سے بند ہے جس کی وجہ ایک حصے کی چھت کا منہدم ہونا اور عمارت کو خطرناک قرار دیا جانا تھا۔ اسکول انتظامیہ کی متعدد درخواستوں کے باوجود حکومت کی جانب سے عمارت کی مرمت پر توجہ نہیں دی گئی۔

اسکول کے پرنسپل عمران قریشی بتاتے ہین " 42 کینال پر پھیلا اسکول اب سولہ کینال تک سکڑ گیا ہے، مسجد سے ملحقہ زمین بھی اسکول سے منسلک تھی مگر مین مری روڈ پر مہنگی زمین ہونے کے باعث اس پر تجاوزات قائم ہوچکی ہیں، ہم نے عدالتوں سے بھی رابطہ کیا مگر مقدمات تاحال زیرالتواءہیں"۔

قائداعظم محمد علی جناح کی ایک تصویر ایک کمرہ جماعت میں لٹکی ہوئی ہے، قائداعظم اس اسکول کا دورہ کرنے والی اہم ترین شخصیات میں بھی شامل ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناح کی ایک تصویر ایک کمرہ جماعت میں لٹکی ہوئی ہے، قائداعظم اس اسکول کا دورہ کرنے والی اہم ترین شخصیات میں بھی شامل ہیں۔
لوہے کی یہ گھنٹی گزشتہ 130 برس سے یہاں لگی ہوئی ہے اور اب بھی استعمال ہورہی ہے— تصاویر خرم امین
لوہے کی یہ گھنٹی گزشتہ 130 برس سے یہاں لگی ہوئی ہے اور اب بھی استعمال ہورہی ہے— تصاویر خرم امین

تبصرے (2) بند ہیں

Erum May 11, 2015 10:26pm
This building is excellent and ideal for school / college but need maintenance my school "Delhi Govt School Karachi" although not too old but demolished more than this building
یمین الاسلام زبیری May 12, 2015 03:35am
اوپر دیے گئے اسکول کی اہمیت نہ صرف ایک تعلیمی ادارے کی ہے بلکہ اس کی عمارت تاریخی بھی ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیم کو سب سے کم حیثیت حاصل ہے۔ ہم دنیا بھر کے اوٹ پٹانگ کاموں میں لگے رہتے ہیں لیکن تعلیم کی طرف کوئی توجّہ نہیں دیتے۔ اسکول کی عمارت ہو یا اس کا پڑھانے والا عملہ ان کو ہمیشہ ہی سے غیر ضروری خرچ سمجھا گیا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم لیپ ٹاپ تو بانٹ رہے ہیں لیکن اس طرف توجّہ نہیں دے رہے۔ لیپ ٹاپ بیکار ہے اور دکھاوا ہے اگر اسکول کی عمارت اور اساتذہ میعاری نہیں ہیں۔