پاکستان میں کرکٹ بیٹ کس طرح تیار ہوتے ہیں

فیفا ورلڈ کپ 2014 میں برازوکا کا استعمال سیالکوٹ کیلئے سنگ میل ثابت ہوا۔ ہندوستان کی ورکنگ باؤمڈری سے متصل یہ شہر ملک بھر میں کھیلوں کی بہترین مصنوعات کی تیاری کیلئے شہرت رکھتا ہے جو سالانہ 1.65 ارب ڈالر کا کھیلوں کا سامنا برآمد کرتا ہے۔

وہ لوگ جب ابھی تک اسی شش وپنج میں مبتلا ہیں کہ آخر یہ ’برازوکا‘ ہے کیا تو ان کی معلومات کیلئے بتاتے چلیں کہ یہ برازیل کی میزبانی میں ہونے والے 2014 ورلڈ کپ میں فیفا کی آفیشل فٹبال تھی۔ دھاگوں سے تیار کردہ گیند کے مقابلے میں برازوکا ’تھرمو بانڈ‘ ٹیکنالوجی سے تیار کی گئی تھی۔

2014 میں فٹبال کی عالمی درجہ میں 159ویں نمبر پر موجود پاکستانی ٹیم عالمی کپ میں ملک کی نمائندگی کا خواب تو پورا نہ کر سکی لیکن تاہم مسعود اختر اور ان کی کمپنی ’فارورڈ اسپورٹس‘ کی انتھک محنت کا نتیجہ تھا جس کی بدولت وہ ورلڈ کپ میں فٹبال بنانے کا معاہدہ کرنے میں کامیاب رہے۔

تاہم فٹبال ایک واحد کھیل نہیں جس کی اشیا اور مصنوعات کی تیاری پر پاکستان فخر محسوس کرے۔

پاکستان میں شاید ہی کوئی ہو جسے ماضی میں ہاکی کی دنیا میں پاکستانی ٹیم کے کارہائے نمایاں کا علم نہ ہو جس نے مشرق سے مغرب تک فتوحات کے جھنڈے گاڑے۔

اب پاکستانی ہاکی ٹیم کی میدان میں کارکردگی یقیناً شرمناک ہے لیکن سیالکوٹ کی مختلف فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے حوصلے ابھی بھی بلند ہیں۔

پاکستان کس تعداد میں ہاکی کی مصنوعات بناتا اور برآمد کرتا ہے، اس حوالے سے باقاعدہ اعدادوشمار تو دستیاب نہیں ہو سکے لیکن کھیلوں کی دنیا کی بہترین کمپنیوں میں سے ایک ’کوکابورا‘ کی اکثر مصنوعات انور خواجہ انڈسٹریز اور ایم ٹی تکنیک میں تیار اور برآمد کی جاتی ہیں۔

لیکن چاہے فٹبال اور ہاکی کی مصنوعات کتنی ہی تعداد میں دنیا بھر میں برآمد کیوں نہ ہوں، پاکستان میں کرکٹ ہمیشہ صف اول پر رہے گا۔

کرکٹ کے کھیل سے محبت نے مجھے پاکستان میں کھیلوں کی مصنوعات کی تیاری کے مرکز سیالکوٹ آنے پر مجبور کردیا تاکہ میں سی اے اسپورٹس کے چیف ایگزیکٹو اور ڈائریکٹر زاہد جاوید سے مل کر ان سے ان کی کمپنی کے کامیاب سفر کی داستاں اور کرکٹ کے بلے کی تیاری کے مراحل دیکھ سکوں۔

سی اے کی بنیاد 1958 میں چراغ عبدالرشید نے رکھی جہاں وہ لان ٹینس کے لیے لکڑی کے ریکٹ بناتے تھے تاہم وہ شاید خود بھی نہ جانتے ہوں کہ آنے والے وقتوں میں ان کے کرکٹ کے بلے کرکٹ کے کھیل میں انقلابی تبدیلیوں کا سبب بنیں گے۔

وہ شاید ہی جانتے ہوں کہ ان کے بچے ان کے نام کے ابتدائی الفاظ ’سی اے‘ کا استعمال کرتے ہوئے ای کھیلوں کی کمپنی کی بنیاد رکھیں گے جس کے بلے جلد دنیا کے چند عظیم ترین کھلاڑیوں کی پہلی ترجیح بن جائیں گے۔

جاوید کے والد نے 1965 میں کرکٹ کے بلوں کی تیاری کام شروع کیا لیکن ملک میں اس وقت کھیل مقبول نہ ہونے کے سبب انہوں نے بلے کی تیاری کا کام بند کردیا۔

جاوید نے بتایا کہ ٹینس کی اس وقت بہت مانگ تھی اور ہماری مصنوعات کی دنیا بھر میں برآمدات ہوتی تھی۔

تاہم 70 کی دہائی میں کرکٹ کا کھیل یکدم مقبول ہونا شروع ہوا اور ٹینس کے شائقین میں کمی آنے لگی خصوصاً 1975 میں جاپان کی ٹینس کے کاروبار میں آمد سے ’سی اے‘ کی مارکیٹ کو شدید دھچکا لگا کیونکہ انہوں نے لکڑی کی جگہ گریفائٹ کے بنے ریکٹ متعارف کرائے۔

اس موقع پر سی اے کی مانگ میں انتہائی تیزی سے کمی واقع ہوئی اور انہوں نے درست فیصلہ کرتے ہوئے ریکٹ کی تیاری کا کام بند کر کے دوبارہ کرکٹ کے بلے کی تیاری کا کام شروع کیا۔

تاہم کرکٹ کے بلے اور متعلقہ سامنا بنانے سے زیادہ دشوار مرحلہ اس وقت مارکیٹ میں جگہ بنانا تھا کیونکہ اس وقت پاکستانی کھلاڑی انگلینڈ کے بنے بلوں سے کھیلنے کو ترجیح دیتے تھے لہٰذا پاکستانی کھلاڑیوں کو مقامی سطح پر تیار کردہ چیز کے استعمال پر راضی کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔

جاوید نے 79-1978 میں ہندوستان کے دورہ پاکستان کو کرکٹ کے کھیل کے فروغ کے لیے ڈرامائی موڑ قرار دیا جس سے پاکستان میں اس شعبے کے کاروبار کیلئے نئے دروازے کھل گئے۔

اس موقع پر دنیا بھر میں کرکٹ کے کھیل میں جدت لانے کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے دنیا بھر میں بنائے جانے والے سیدھے بلوں کی جگہ خم دار بلے بنانا شروع کیے۔

تاہم کسی عالمی کرکٹر سے معاہدے کیلئے سی اے کو ڈیڑھ دہائی تک انتظار کرنا پڑا اور 1984 میں سلیم ملک عالمی سطح پر نئی تکنیک کے تحت تیار کردہ بلا استعمال کرنے والے پہلے بلے باز بنے۔

سلیم ملک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اگلے ہی سال رمیز راجہ، وسیم اکرم، سلیم یوسف، اقبال قاسم اور دیگر کھلاڑیوں نے سی اے کے تیار کردہ بلے استعمال کرنا شروع کر دیے۔

جاوید نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی بلے بازوں کو خم دار بلے سے کھیلتا دیکھ کر ہندوستان نے بھی اس تکنیک کی نقل کرتے ہوئے ایسے ہی بلے استعمال کیے۔

1997 سی اے کے لیے اہم ترین سال ثابت ہوا جب اس وقت کے دنیا کے سب سے بہترین بلے باز ویسٹ انڈین برائن لارا نے نے اس وقت دنیا کی سب سے بڑی انگلش کمپنی گرے نکولس سے معاہدہ ختم کر کے سی اے سے معاہدہ کر لیا۔

یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ گرے نکولس سی اے کے مالک کے پاس آئے اور ان سے خم دار بلے بنانے کی تکنیک پوچھی جس پر وہ انہیں فیکٹری میں لے گئے اور بلے کی تیاری کے مکمل عمل کا نظارہ کرایا۔

جاوید نے بتایا کہ 2009 میں سری لنکن ٹیم پر لاہور میں دہشت گرد حملے کے بعد سے اس صنعت کو بھی شدید نقصان پہنچا اور کاروبار 50 فیصد تک رہ گیا۔

’اگر عالمی سطح پر ہماری مصنوعات کی مانگ نہ تھی تو اب تک ہم اپنی فیکٹری کو تالے لگا چکے ہوتے‘۔

سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد سے پاکستان میں عالمی کرکٹ دروازے بند ہو گئے تاہم ملک میں عالمی کرکت کی واپسی کیلئے کوشاں پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) نے انتھک کوششوں سے رواں سال مئی میں زمبابوے کو دورہ پاکستان پر رضامند کیا جو چھ سال بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی پہلی ٹیم بنی۔

لیکن اس کے باوجود جاوید کا ماننا ہے کہ اس طرح کی کوششوں سے کرکٹ کی بحالی میں کوئی مدد نہیں ملے گی، کرکٹ اس وقت تک صحیح معنوں میں بحال نہیں ہو سکتی جب تک یہاں سیکیورٹی صورتحال مکمل طور پر ٹھیک نہ ہو جائے اور عالمی کھلاڑی بلا خوف و خطر کسی بھی شہر کا سفر کر سکیں۔

پی سی بی کے ساتھ تنازع

دیگر کھیلوں کی طرح کرکٹ میں بھی کٹ کی اسپانسرشپ بہت اہمیت کی حامل ہے اور موجودہ دور میں ٹیموں کی کامیابی کا اندازہ ان کی جیت و ہار کی شرح کے ساتھ ساتھ کمرشل سطح پر ان کی قدروقیمت سے بھی لگایا جاتا ہے۔

لیکن پاکستان اس معاملے میں حکمت عملی سے بالکل عاری نظر آتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اپنا برانڈ بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگیا جا سکتا ہے کہ ورلڈ کپ 2015 ہندوستان نے کٹ کے معاہدے کے عوض 60 ملین ڈالر وصول کیے تھے اور سب کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ پاکستان کی کٹ کی کوئی قیمت نہ تھی۔

اس معاملے میں جاوید نے بتایا کہ کن حالات واقعات کی وجہ سے پی سی بی اور سی اے کی طویل عرصے سے جاری شراکت اختتام کو پہنچی اور ورلڈ کپ کیلئے پی سی بی نے کٹ کا معاہدہ مبینہ طور پر ’فری‘ میں ایک غیر معروف کمپنی ’ہنٹ‘ سے کر لیا۔

جاوید نے بتایا کہ میں نے پی سی بی کوئی مرتبہ کہا کہ اگر ان کے پاس نائیکی یا ایڈیڈاس جیسے برانڈ ہیں تو پھر وہ مطالبات کرنے میں حق بجانب ہیں، گزشتہ کئی سالوں کے دورقان پی سی بی بولی کا عمل دہرایا اور ان تمام مواقعوں پر سی اے کے سوا بولی دینے والا اور کوئی نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے پی سی بی سے ورلڈ کپ سے قبل معاہدہ کیا تھا کہ وہ غیرقانونی طور پر کٹس بیچنے والوں کیخلاف قانونی کارروائی کریں گے لیکن انہوں نے ہمارے بار بار بتانے کے باوجود بھی ایسا نہیں کیا، نتیجتاً ہمارے ہدف کے مطابق 25 فیصد بھی کٹ فروخت نہیں ہو سکیں۔

جاوید کے مطابق ہم نے پی سی بی کو نوٹس بھیجا جس کے جواب میں انہوں نے ہمیں قانونی نوٹس بھیج دیا اور معاہدہ ختم کر دیا۔

اس حوالے سے جب پی سی بی کے جنرل منیجر آغا اکبر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے جاوید کے موقف کی یکسر تردید کرتے ہوئے بتایا کہ سی اے نے پاکستان کے ورلڈ کپ کے فوراً بعد دورہ بنگلہ دیش سے قبل ہی معاہدہ ختم کیا، ایسے موقع پر ہم کٹ کی وجہ سے دورہ تو ختم نہیں کر سکتے تھے لہٰذا ہم نے متبادل پر غور شروع کیا اور ہنٹ سے معاہدہ کر لیا۔

انہوں نے بتایا کہ بورڈ سی اے کے ساتھ تمام معاملات حل کرنے کا خواہاں ہے، بورڈ نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان تنازع کے حل کیلئے ثالث مقرر کرے۔