پاکستان میں ڈیڑھ ہزار سال قدیم بدھا کا مجسمہ

منگلور پاکستان کا وہ منفرد گاؤں ہے جس نے کئی تہذیبوں کو اپنی آغوش میں پالا ہے۔ 327 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے اس گاؤں پر حملہ کیا تھا۔ یہاں آج بھی پتھر میں کندہ شدہ بدھا کا دنیا کا دوسرا بڑا مجسمہ موجود ہے جس کی تاریخ چھٹی یا ساتویں صدی عیسوی ہے۔ یہی منگلور 1515 سے قبل جہانگیری سلطان اویس کا صدر مقام تھا۔

گاؤں منگلور ضلع سوات کے بڑے شہر مینگورہ سے شمال کی طرف 8 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سطح سمندر سے منگلور کی بلندی 987 میٹر یا 3238 فٹ ہے۔ گاؤں کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے گاؤں کے رہائشی پرویش شاہین کہتے ہیں: ’’جہاں بدھ مت کے ہزار عالم رہتے تھے، اس علاقے کو ’منگ‘ کہا جاتا تھا۔ منگ کے ساتھ سابقے و لاحقے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے از خود لگائے ہیں۔ سوات ہی کے علاقے منگورہ (مینگورہ)، منگولتان، ہزارہ کے منگ اور بونیر کے منگل تانڑہ میں مذکورہ لفظ باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔‘‘

دوسری طرف وکیل حکیم زئے اپنی کتاب ’دغہ زمونگ کلے دے‘ کے صفحہ نمبر 159 پر رقمطراز ہیں کہ ’منگل‘ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خوشحالی کے ہیں۔ وکیل حکیم زئے کے مطابق منگلور دو الفاظ یعنی ’منگل‘ اور ’اُور‘ کا مرکب ہے جس کے معنی ’امن، خوشحالی اور زرخیزی کا گھر‘ کے ہیں۔

گاؤں منگلور کا ایک طائرانہ منظر.
گاؤں منگلور کا ایک طائرانہ منظر.
گاؤں منگلور کا ایک طائرانہ منظر.
گاؤں منگلور کا ایک طائرانہ منظر.
زیادہ تر مقامی لوگوں کا پیشہ کھیتی باڑی ہے.
زیادہ تر مقامی لوگوں کا پیشہ کھیتی باڑی ہے.

پروفیسر عطاء الرحمان عطاء کی تحقیق کے مطابق گاؤں منگلور یوسف زئیوں کی سوات آمد سے پہلے بدھ ریاست کا دارالحکومت رہ چکا ہے۔ یوسف زئیوں کی آمد سے پہلے سوات میں دو ریاستیں تھیں۔ منگلور جس ریاست کا صدر مقام تھا، اس کے حکمران کا نام سلطان اویس تھا۔ ’تزک بابری‘ اور ’تواریخ حافظ رحمت خانی‘ میں اس کی تصدیق ملتی ہے۔ کچھ حوالوں میں منگلور کو ’منگل پورہ‘ اور ’مساگا‘ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے، مگر مساگا پر اب تک مختلف ماہرِ آثار قدیمہ کے درمیان اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔

سر الیگزینڈر کننگھم انگریزوں کے دور میں آرکیالوجی کے باوا آدم تصور کیے جاتے ہیں۔ وہ اپنی تحقیق ’جیوگرافی آف انڈیا‘ میں رقم کرتے ہیں کہ سکندر اعظم نے جو حملہ 327 قبل مسیح میں سوات پر کیا تھا، اس میں سب سے بڑا حملہ مساگا (منگلور) پر کیا گیا تھا۔ اس طرح حالیہ وسطی ایشیاء میں ایک تحقیقی رسالے نے لفظ ’مساگا‘ کو منگلور ہی کے لیے استعمال کیا ہے۔

اس تحقیق کے مطابق 327 قبل مسیح میں منگلور کو مساگا کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ سکندر اعظم کے حملے کے بعد تقریباً 1200 سال تک منگلور کو صدر مقام کی حیثیت حاصل رہی۔ اس گاؤں کا نام کسی کو معلوم نہ ہوتا اگر مشہور چینی سیاح ہیون سانگ یہاں نہ آتے۔ اس نے اس گاؤں کا نام ’منگ کلی‘ یا ’منگ چلی‘ لکھا ہے۔

شمال کی طرف سے گاؤں میں داخل ہونے کے لیے استعمال ہونے والا لکڑی کا بنا پل۔
شمال کی طرف سے گاؤں میں داخل ہونے کے لیے استعمال ہونے والا لکڑی کا بنا پل۔
شمال کی طرف سے گاؤں میں داخل ہونے کے لیے استعمال ہونے والا لکڑی کا بنا پل۔
شمال کی طرف سے گاؤں میں داخل ہونے کے لیے استعمال ہونے والا لکڑی کا بنا پل۔

گاؤں منگلور کے اور رہائشی رضا خان کے مطابق "1515 عیسوی سے پہلے ظہیرالدین بابر کے دور میں سوات کے علاقوں میں جہانگیری سلطان اویس کی حکومت تھی جس کا دارالخلافہ منگلور تھا۔ ملک اویس کی بیوی ملک احمد خان کی بہن تھی۔ یوسف زئیوں کے حملے کے خوف سے ملک اویس نے اپنی بیوی کو مار ڈالا۔ ملک احمد خان نے اپنی بہن کے خون ناحق کے بدلے کے طور پر سوات پر ہلہ بول دیا اور اسے فتح کیا۔"

ملک احمد خان کی بہن کا مرقد اب بھی منگلور گاؤں میں ہے۔ آج کل منگلور میں یوسف زئیوں کے دو مشہور قبیلے ’بامی خیل‘ اور ’اکا معروف‘ رہتے ہیں۔ مشرقی منگلور اکا معروف کا علاقہ ہے اور مغربی منگلور بامی خیل کا۔

گاؤں میں آج بھی بدھ مت دور کے آثار جابجا بکھرے پڑے ہیں۔ ان میں ایک ’جہان آباد بدھا‘ بھی ہے جو پتھر میں کندہ کیا گیا دنیا کا دوسرا بڑا بدھا ہے۔ جہان آباد بدھا کی تاریخ کے حوالے سے دو روایات مشہور ہیں۔ پہلی روایت کے مطابق اس کی تاریخ چھٹی صدی عیسوی ہے جبکہ دوسری کے مطابق ساتویں صدی عیسوی ہے۔ افغانستان کے علاقے بامیان کے بدھا کے بعد جہان آباد بدھا پتھر میں کندہ کیا گیا دنیا کا دوسرا بڑا مجسمہ ہے۔ کوئی دو سو سے زیادہ سیڑھیاں اس تک پہنچنے کے لیے تعمیر کی گئی تھیں۔ بدھا تک پہنچنے کے بعد پہاڑی کا اوپر سے جائزہ لینے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اسے ایک ایسے مقام پر کندہ کیا گیا ہے جہاں سے دریائے سوات کا دور دور تک نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

جہان آباد بدھا۔
جہان آباد بدھا۔
جہان آباد بدھا۔
جہان آباد بدھا۔
سوات میں جاری شورش کے دوران بدھا کے مجسمے کا چہرہ بارود سے اڑایا گیا ہے۔
سوات میں جاری شورش کے دوران بدھا کے مجسمے کا چہرہ بارود سے اڑایا گیا ہے۔
منگلور میں ایک پہاڑی کے اوپر بڑے پتھروں پر سنسکرت تحریر موجود ہے جسے تیسری صدی عیسوی میں کندہ گیا.
منگلور میں ایک پہاڑی کے اوپر بڑے پتھروں پر سنسکرت تحریر موجود ہے جسے تیسری صدی عیسوی میں کندہ گیا.

شورش کے دوران دو مرتبہ جہان آباد بدھا کو بارود سے اڑانے کی کوشش کی گئی۔ ڈرل کے ذریعے اول اس کے چہرے میں سوراخ کئے گئے اور بعد میں اسے بارود کے ذریعے اڑا دیا گیا۔ اطالوی آرکیالوجیکل مشن نے دو مرتبہ اس کا چہرہ مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے کام کیا ہے۔ امید یہی کی جاتی ہے کہ اسے جلد مکمل طور پر بحال کر دیا جائے گا۔

اس کے علاوہ منگلور ہی کے علاقہ جہان آباد میں ایک بڑے پتھر پر ایک اقتباس سنسکرت زبان میں کندہ ملتا ہے جس کی تاریخ تیسری صدی عیسوی ہے۔

منگلور کی کل آبادی لگ بھگ 45 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں کی 100 فیصد آبادی پشتو بولتی اور سمجھتی ہے۔ گاؤں کے پہاڑوں پر آباد لوگ ’گوجری‘ اور ’اجڑی‘ زبانیں بولتے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو اور انگریزی زبانیں بھی گاؤں والے سمجھتے ہیں۔ منگلور کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ سوات کا دوسرا بڑا پہاڑ ’دوہ سرو‘ بھی اسی گاؤں میں واقع ہے۔ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی، سرکاری ملازمت اور اندرون و بیرونِ ملک محنت مزدوری ہے۔ یہاں ایک سول ہسپتال، ایک کڈنی ہسپتال اور اس کے علاوہ گرد و نواح میں تین بنیادی صحت کے مراکز بھی ہیں۔

سماجی کارکن ڈاکٹر جواد کے مطابق گاؤں کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں ہر شخص کی ذاتی لائبریری ہے۔ یہاں 39 پرائمری اسکول، 5 مڈل اسکول، 3 ہائی اسکول اور ایک ہائیر سیکنڈری اسکول قائم ہیں۔ ’’ہمارے سروے کے مطابق منگلور کی شرح تعلیم 89 فیصد ہے۔ اگر منگلور کے پہاڑوں پر رہنے والوں کو منہا کیا جائے، تو منگلور کی شرح تعلیم سو فیصد بنتی ہے۔‘‘

منگلور کی زمین بڑی زرخیز ہے، یہاں گندم، جوار اور غلہ وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ یہاں کی مولی، شلغم، پالک اور سرسوں کی ساگ پورے صوبے میں مشہور ہے۔ پھلوں میں شفتالو، جاپانی پھل، خوبانی اور آلوچہ بڑی مقدار میں پیدا ہوتا ہے جو گاؤں کی ضروریات سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ منگلور کے چپل کافی مشہور ہیں جو کم قیمت ہیں اور پورے سوات میں انہیں ہر عمر کے لوگ پسند کرتے ہیں۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری


امجد علی سحاب فری لانس صحافی ہیں اور تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔