Dawnnews Television Logo

'میں ہر روز زندہ ہوتا اور پھر مر جاتا'

جنسی استحصال کا شکار ہونے والا ملوک آباد کا 13 سالہ بچہ اب تک اس ہولناک واقعے کے اثر سے باہر نہیں نکل سکا۔
اپ ڈیٹ 23 مئ 2016 09:30pm

محمود * رات گہری ہونے کا انتظار کرتا تھا۔ جب وادی سوات میں تاریکی کے سائے پھیل جاتے تو محمود دیگر بچوں کے ہمراہ اپنی دادی ' ابائی' کے پاس جاکر پریوں کی داستانیں سنتا جن میں شہزادوں کی بہادری اور پہاڑوں کی بری روحوں کا ذکر ہوتا۔ وہ اپنی ماں مہرو جان کی گود میں سر رکھ کر سو جاتا مگر اب وہ رات سے ڈرتا ہے۔

13 سالہ مالاکنڈ کے پسماندہ علاقے میں پریوں کی کہانیاں سنتے ہوئے بڑا ہوا، ہر صبح وہ اٹھنے کے بعد رات کو نظر آنے والے خواب بیان کرتا۔ اسکول کے وقفے کو وہ ہر کسی کو کہانیاں سنانے کے لیے استعمال کرتا، اب وہ تندور والا بھی ہوسکتا تھا یا کوئی پھلوں کی ریڑھی لگانے والا بھی۔

اس کی پسندیدہ کہانی وہ تھی جس میں ایک پری کا ذکر تھا جو کوہ قاف کی وادی سے آئی تھی، وہ نگر نگر پھرنے والے اس چرواہے کی محبت میں گرفتار ہوگئی جو زندگی کے راستے پر چل کر ایک شہزادہ بن جاتا ہے۔ اس کے پاس ایسی کہانیاں بھی تھیں جن سے وہ دیگر بچوں کو ڈراتا۔

"میری ابائی کہتی ہیں کہ بچوں کو مرگو کانڈہ کبھی نہیں جانا چاہئے، وہاں بری روحیں رہتی ہیں"۔

مرگو کانڈہ سیدو شریف کے قریب پہاڑی کے نشیب میں واقع دریا سے لگنے والا علاقہ ہے جسے والی سوات کے دور میں قاتلوں کو سزا دینے کے لیے متاثرہ خاندان استعمال کرتے تھے۔

اپنے گرد و نواح، اسکول اور بازار میں محمود کو " خوابوں میں رہنے والا لڑکا" کہا جاتا تھا۔

ایک شام وہ 'خونی چوک' کے بازار کی جانب جارہا تھا، یہ وہ جگہ ہے جسے طالبان اپنے حریفوں کو مارنے اور ان کی لاشیں کھمبوں سے لٹکانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ محمود اپنی ذیابیطس کی شکار ماں کے لیے ادویات خریدنے جارہا تھا۔ اسے یاد ہے کہ وہ فروری کی بھیگی ہوئی ایک شام تھی۔

صنوبر کے درختوں سے ٹکرا کر آنے والی ہوا ایک خوفناک سیٹی پیدا کررہی تھی اور اس سے وہ کچھ ڈر گیا تھا۔ " میری ابائی نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ اس طرح کی سیٹی کی آواز اس وقت آتی ہے جب بری روحیں ایک دوسرے سے لڑ رہی ہوں۔ ان روحوں کو لوک ہیرو ملا بہادر نے شکست دی تھی مگر وہ اب بھی کراکر کے پہاڑ میں قید کی زندگی گزار رہی ہیں"۔

محمود کے خیالات اس وقت درہم برہم ہوگئے جب دو افراد نے ایک سرخ گاڑی سے چھلانگ لگائی اور اسے گھسیٹ کر گاڑی میں ڈال لیا " اس وقت مجھے لگا کہ وہ صنوبر کے درختوں کی بلائیں جو کراکر سے آئی ہیں"۔

اس کے بقول " وہ میرے خوابوں کے شیطان جیسے تھے، میں چیخنے چلانے لگا، میں نے ان سے التجا کی کہ مجھے گھر جانے دیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میری ماں بیمار ہے اور میری جیب میں اس کی دوائیں ہیں، میں روتا رہا اور روتا رہا"۔

محمود کو بچوں کے جنسی استحصال کرنے والے افراد نے پکڑا تھا۔ 12 دن اور راتوں تک خوفناک استحصال کے بعد ان ملزمان نے محمود کو اس وقت سڑک پر پھینکا جب انہیں پولیس کے چھاپے کا ڈر تھا۔ اس ہولناک واقعے نے پوری وادی کو ہلا کر رکھ دیا۔

گھر پر اس کے فکر مند والد تاج* جو ایک مزدور تھے، دیوانہ وار بیٹے کو پورے قصبے میں ڈھونڈتے رہے، جبکہ اس کی والدہ اور دادی نے مزارات پر جاکر بچے کی واپسی کے لیے دعائیں کیں۔

اپنے مینگورہ کے حالیہ دورے کے دوران اس معصوم بچے اور اس کی مشکل کے بارے میں بات کرنا میری زندگی کے مشکل ترین مراحل میں سے ایک تھا۔

محمود نے واقعے کے بارے میں مزید بتایا "ان میں سے ایک سب سے بڑا شیطان تھا اور دو اس کے ملازم لگتے تھے، بڑے شیطان نے کہا 'میرا پستول لاﺅ، میں تم کو قتل کرکے قبر دفنا دوں گا'، میں بہت زیادہ ڈر گیا تھا، انہوں نے مجھے کچھ منشیات دی اور پھر بڑے شیطان نے مجھے کہا کہ جا کر غسل کرو اور پھر مجھے کپڑے اتارنے کا حکم دیا"، اس کے بعد محمود خاموش ہوگیا۔

میرے اوپر سکتہ طاری ہوگیا تھا، میں نے اپنا بازو اس کے کندھوں کے گرد کرکے تسلی دی اور اسے کچھ وقت دینے کے لیے وہاں سے چلا گیا۔ میں اس طرف گیا جہاں اس کا خاندان اور برادری کے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے، وہاں میں نے کچھ پانی لیا، جب میں واپس آیا تو وہ اپنی کاپی میں میرے قلم سے کچھ بنا رہا تھا۔ میں نے اسے ڈرائنگز دکھانے کا کہا۔

محمود نے اپنی آزمائش کے خاکے بنائے تھے۔ اس نے اپنی قید کی تکلیف دہ کہانی کی عکاسی کی تھی، جیسے اسے ایک ورزش کی مشین سے باندھ کر رکھا گیا اور اس کمرے کا بستر جہاں اسے بند رکھا گیا۔ اس نے اپنے اوپر ظلم کرنے والے اور اپنا چہرہ بنایا مگر پھر اس پر سیاہی پھیر دی۔

اس نے مردہ دلی سے بتایا " ہر روز میں زندہ ہوتا اور پھر مرجاتا، میں بس اپنی مہرو جان اور ابائی کے ساتھ رہنا چاہتا تھا"۔

محمود ہی واحد متاثرہ بچہ نہیں، اس کے ساتھ ایک اور لڑکا 14 سالہ قیصر * بھی ہے جس نے دو سال سے زائد عرصے تک قید کاٹی۔

اس قید کے دوران بچوں کو گھسیٹا جاتا، اسلحے سے ڈرایا جاتا، زبردستی لڑکیوں کے کپڑے پہنائے جاتے، ریپ کے مناظر دکھائے جاتے، فحش فلمیں دیکھنے پر مجبور کیا جاتا، جنسی استحصال کی عکسبندی کی جاتی اور ان تصاویر و ویڈیوز کو دکھا کر دھمکایا جاتا۔

ان دونوں کو پولیس کے ایک چھاپے کے دوران بازیاب کرایا گیا جو ملزمان کی گرفتاری کے بعد مارا گیا تھا۔

بڑا شیطان اورنگزیب تھا جسے دو ساتھیوں سجاد اور عرم خالق عرف نواب کے ہمراہ حراست میں لیا گیا۔ میں نے ان سے مینگورہ پولیس اسٹیشن میں ملاقات کی جنھیں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں اور وہ حوالات میں بند تھے۔ ان پر بچوں کے اغوا، غیرقانونی طور پر قید میں رکھنے اور بدفعلی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

یہاں ایک اور کردار شیریں زادہ بھی تھا جس نے مقامی صحافیوں کے ایک گروپ کو ویڈیوز اور تصاویر فراہم کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس کا بھانجہ بھی غائب ہے، مگر پولیس حکام کا کہنا تھا کہ وہ بھی ملزمان کا ساتھی اور 'ڈبل گیم' کھیل رہا تھا یعنی ایک طرف صحافیوں کو شواہد فراہم کررہا ہے اور دوسری جانب اورنگزیب سے بیگانگی اختیار کرلینے والے بھائیوں سے بھتے کا مطالبہ کررہا تھا۔

پولیس حکام کے مطابق شیریں زادہ بھی اب حراست میں ہے۔

پولیس کے چیف تفتیش کار صادق اکبر کے مطابق یہ گروہ سولہ سال سے کام کررہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اورنگزیب نے 17 بچوں کے جنسی استحصال کا اعتراف کیا ہے مگر پولیس اس وقت محمود اور قیصر کے مقدمات کی تفتیش کررہی ہے۔

پولیس افسر کے مطابق دیگر پندرہ مقامات کو بھی دیکھا جائے گا " ہم مزید شواہد جمع کررہے ہیں تاکہ ملزمان کی زیادہ سے زیادہ سزا کو یقینی بنایا جاسکے"، ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹرائل بہت جلد شروع ہونے کی توقع ہے۔

ہمارے سماجی رویوں، پیمانے اور بچوں کے جنسی استحصال کی سنجیدگی کو ہمیشہ زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، چاہے وہ سوات ہو یا ملک کا کوئی اور حصہ۔

ابتداءمیں مقامی صحافیوں کے ایک گروپ نے اس مقدمے کو اس ڈر سے اجاگر نہ کرنے کا فیصلہ کیا کہ یہ قصور اسکینڈل کی طرح دھماکا خیز ثابت نہ ہوجائے اور سوات کے عوام کی بدنامی کا باعث نہ بن جائے۔ تاہم انہوں نے پولیس کو تصویری شواہد فراہم کرتے ہوئے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔

مرکزی میڈیا اس وقت پاناما لیکس کے بعد پیدا ہونے والی طوفانی سیاسی صورتحال میں گم تھا اور اس نے سوات کی کہانی پر زیادہ توجہ نہیں دی۔

یہ تردیدی ردعمل اور ممانعت پیمرا کی عکاس ہے جس نے حال ہی میں ہم ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈرامے 'اڈاری' کو ایک نوٹس جاری کیا، جس کا مقصد بچوں کے جنسی استحصال کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔

ریگولیٹری ادارے کا ماننا ہے کہ اس طرح کی تصویر کشی سماجی روایات کے خلاف ہے۔ یہ گروہ انتہائی سیکیورٹی والے سوات میں سرگرم رہا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آخر تردیدی وضاحتوں کے باعث اس طرح کے مسائل ترجیحات کا حصہ کیوں نہیں بن پاتے۔

مینگورہ کے علاقے ملوک آباد واپس چلتے ہیں، محمود کے ان پڑھ والد تاج نے ملزمان کے خلاف مقدمہ لڑنے اور انصاف کے حصول کا عزم ظاہر کیا ہے۔ وہ پہلے ہی 20 ہزار روپے کے قرضے کے بوجھ میں دبے ہوئے ہیں جو انہوں نے اس مقدمے میں وکیل کی فیس کے لیے لیا۔

برادری کے بااثر بزرگ حاجی ملوک شہاب کے حجرے میں بات کرتے ہوئے تاج نے کہا" میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتا، مجھے لگتا ہے کہ اورنگزیب کے کارندے میرا تعاقب کررہے ہیں۔ مجھے دھمکیوں پر مبنی کالز موصول ہورہی ہیں جبکہ دولت کی پیشکش بھی کی جارہی ہے جسے قبول کرکے مقدمے سے دستبردار ہوجاﺅں یا نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوجاﺅں۔ مگر میں اپنے بچے کے لیے انصاف چاہتا ہوں"۔

محمود کے والد اور اس علاقے کے دیگر افراد مقدمے کی پیشرفت کے حوالے سے پولیس کے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ حاجی ملوک شہاب نے کہا " ہم سب فکرمند اور پریشان ہیں، اس مقدمے نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ہماری خواتین بہت زیادہ تناﺅ کا شکار ہیں، اب جب بچے باہر کھیلنے کے لیے جاتے ہیں تو ان کی واپسی میں معمولی سی تاخیر بھی خواتین کو پریشان کردیتی ہے"۔

دیگر افراد نے بھی اس بات سے اتفاق کیا اور حاجی ملوک نے کہا " طالبان کے جانے کے بعد سے ہم اپنی خوبصورت وادی کے رنگوں کو واپس لانے کی کوشش کررہے ہیں مگر اس طرح کے عفریت نے زخموں کو پھر تازہ اور بچوں کی روحوں کوتار تار کردیا ہے"۔

اس مقدمے میں بچوں اور متاثرہ خاندانوں کو اپنی برادری کا تعاون حاصل ہے اور حجرے میں موجود مردوں نے مجھے بتایا" ہم ملزمان کے لیے عبرتناک سزا چاہتے ہیں، ہم نے قانونی جنگ کے لیے عطیات جمع کرنے کی مہم شروع کی ہے، ہم پولیس کو درگزر نہیں کرنے دیں گے"۔

جیسے جیسے سورج غروب ہونے لگا، حجرے میں موجود افراد منتشر ہونے لگے جب کہ تاج نے حاجی ملوک کا شکریہ ادا کیا۔ اس نے اپنے بیٹے محمود کا ہاتھ پکڑا اور گھر کی جانب چلا گیا۔

سوات میں رات کی تاریکی چھاتے دیکھ کر میں نے تصور کیا کہ محمود دیگر بچوں کے ہمراہ اپنی دادی کے پاس بیٹھا ہے۔ میں حیرت سے سوچ رہا تھا کہ کس طرح کی کہانیاں وہ سننا چاہتا ہوگا اور کس طرح کی داستانیں وہ دیگر کے ساتھ اب شیئر کرے گا۔ اس کے ایک نئے خاکے میں وہ اپنے استحصال کرنے والے کے چہرے پر فائرنگ کررہا ہے۔

آسمان پر ستاروں کی جگمگاہٹ کو دیکھتے ہوئے مجھے توقع ہے کہ ' خوابوں میں رہنے والا لڑکا' اس خوفناک خواب سے باہر نکل کر اپنے اصل خوابوں کو پھر تلاش کرلے گا۔


  • ناموں کو پرائیویسی کے تحفظ کے لیے بدل دیا گیا ہے

تصاویر بشکریہ مراد علی اور کامران


اویس توحید کا شمار پاکستان کے سینئر صحافیوں اور لکھاریوں میں ہوتا ہے۔ وہ ٹوئٹر @OwaisTohid کے نام سے موجود ہیں جب کہ ان کا ای میل ایڈرس [email protected] ہے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔