Dawnnews Television Logo
TO GO WITH Pakistan-unrest-water-crime-health,FEATURE by Guillaume Lavallee
In this photograph taken on August 22, 2015, Pakistani residents fill containers with water provided by the government in a slum area of Karachi.   The coastal city pumps around 2.2 billion litres of water a day from the Indus and Hub rivers, which have seen their flow reduced by scanty rains in recent years. But it is not enough to meet demand in a metropolis where the vital textile industry gobbles up huge amounts.     AFP PHOTO / ASIF HA

پیاسے شہریوں کو 50 ارب کا ٹیکہ کیسے لگتا ہے؟

کراچی میں پانی کی کمی نہیں لیکن چوری اور پھر ٹینکروں کے ذریعے فروخت نے شہریوں کو پانی سے محروم کر رکھا ہے۔
اپ ڈیٹ 02 جون 2016 12:12pm

اس سے میری ملاقات ایک اتوار بازار میں ہوئی، وہ ہفتہ وار بچت بازاروں میں مصنوعی جیولری کا ٹھیلہ لگاتا تھا۔

بچوں کے لیے چھوٹی موٹی جیولری خریدتے ہوئے میں اس سے بھاؤ تاؤ کرنے لگا، میرے کم قیمت لگانے پر وہ روہانسا ہوگیا اور کہنے لگا کہ صاحب اتنے میں تو خرید بھی نہیں، ہمیں بھی بچوں کا پیٹ پالنے دو۔

ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے ایک آنسو چھلک پڑا۔

کہنے لگا صاحب! ہم بھی مجبور ہیں جب ہی اس گرمی میں یہ پسینہ برداشت کر رہے ہیں۔ مجھے اس سے ہمدری محسوس ہوئی اور میں وہیں ایک اسٹول پر اس کے قریب بیٹھ گیا اور اس سے باتیں کرنے لگا۔

اس نے بتایا کہ کہ وہ نارتھ کراچی میں پانچ ہزار روپے کے کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔ اس گرمی میں سارا سارا دن لائٹ نہیں ہوتی اور علاقے میں پانی بھی نہیں آتا۔ بورنگ کا کھارا پانی استعمال کرتے ہیں کیونکہ میٹھا پانی خریدنے کی سکت نہیں۔

"گرمی میں کھارے پانی سے نہانے سے میرے چاروں بچوں کے جسم پر دانے نکل آئے ہیں۔ میں قریب ہی ایک کلینک میں جلد کے ایک ڈاکٹر کے پاس انہیں روزانہ رات میں لے جاتا ہوں۔ وہ ایک بچے کی دوائی کے روزانہ 100 روپے لیتا ہے۔ روز کی دیہاڑی کرنے والے مزدور کے 400 روپے روز دوائی پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ یہ حکمران ہمیں میٹھا پانی دے دیں تو ہماری بیماریوں سے جان چھوٹے۔

یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ میں نے اسے تسلی دی اور اسی کی بتائی ہوئی قیمت پر بچوں کی جیولری خرید لی اور چل پڑا، شاید میں اسے تسلی کے دو بول ہی دے سکتا تھا۔ راستے میں میرے صحافتی پیشے نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ پانی اگر غریب بستیوں میں نہیں پہنچتا، تو کہاں جاتا ہے، اور میں اسی تحقیق میں کئی ہفتے لگا رہا، کراچی کے پانی پر تحقیق کرنے والے کئی دفاتر کے چکر لگائے اور مواد اکٹھا کرتا رہا۔

اس موضوع پر کام کرتے ہوئے مجھ پر آشکار ہوا کہ کراچی میں سالانہ 50 ارب روپے کا پانی چوری کر کے بیچا جاتا ہے اور ایک مضبوط مافیا ہے جو یہ پانی چوری کرتی ہے۔

کئی ہزار لوگ اس دھندے سے وابستہ ہیں اور ساقی کے کام پر مامور سرکاری اداروں کے افسران ان کے پشت پناہ اور اس کمائی میں حصے دار ہیں۔

آئیے آپ بھی دیکھیے کہ کراچی میں سالانہ 50 ارب روپے کا پانی کس طرح چوری کرکے بیچا جاتا ہے۔

تقریباً ڈیڑھ کروڑ آبادی کے شہر میں ماہِ مئی سے لے کر اکتوبر تک پانی کی کمائی کا سیزن ہوتا ہے، اور اس کاروبار سے وابستہ افراد اور مافیا پیسوں میں نہاتی ہے۔

کراچی شہر کو پانی فراہم کرنے کے دو اہم ذرائع ہیں جس میں سے ایک دریائے سندھ ہے، جہاں کوٹری بیراج سے ایک نہر کے ذریعے 1200 کیوسک پانی (یعنی 645 ملین گیلن) ٹھٹہ سے 30 کلومیٹر دور کینجھر جھیل اور وہاں سے دو کینال کے ذریعے کراچی کو پمپ کیا جاتا ہے۔

کوٹری بیراج سے نکلنے والی نہر کے ذریعے کراچی کو 645 ملین گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ — فوٹو موسیٰ کلیم
کوٹری بیراج سے نکلنے والی نہر کے ذریعے کراچی کو 645 ملین گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ — فوٹو موسیٰ کلیم

کراچی کے لیے پانی کا دوسرا اہم ذریعہ حب ڈیم ہے۔ حب ڈیم کا دارومدار چونکہ بارانی پانی پر ہوتا ہے لہٰذا اس ڈیم سے کراچی کو پانی کی سپلائی کم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ ڈیم میں زیادہ پانی ہونے کی صورت میں 75 ملین گیلن یومیہ، جبکہ کمی کے دنوں میں 30 ملین گیلن پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ اوسطاً یہ ترسیل 50 ملین گیلن یومیہ رہتی ہے۔

شہرِ کراچی کے لیے مقرر کردہ پانی کی کل ترسیل 695 ملین گیلن ہے۔ جس میں سے 30 ملین گیلن پانی پاکستان اسٹیل اور پورٹ قاسم کے لیے مختص ہے۔ اس طرح شہر کے لیے 665 ملین گیلن پانی بچتا ہے۔ اس کی تقسیم کیسے ہوتی ہے، پانی کہاں جاتا ہے، حقیقی طور پر کتنا سپلائی کیا جاتا ہے اور کتنا بیچا جاتا ہے، انہی سوالوں کے جوابات کی کھوج نے ہوشربا انکشافات کیے ہیں۔

کراچی کے وہ علاقے جہاں ہمیشہ پانی کا بحران رہتا ہے، کم اور متوسط آمدن کے رہائشی علاقے ہیں، جن میں نیو کراچی، بلدیہ ٹاؤن، لانڈھی، گڈاپ، اورنگی ٹاؤن، کچی آبادیاں، گوٹھ اور چھوٹی چھوٹی کالونیاں ہیں۔

ان تمام چھوٹی بستیوں، کچی آبادیوں اور گوٹھوں میں سے 80 فیصد میں پائپ لائنیں موجود ہیں، لیکن انہیں ان پائپ لائنوں سے پانی فراہم نہیں کیا جاتا، بلکہ یہ کم اور متوسط آمدنی کے لوگ ٹینکرز کے ذریعے پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔

کم اور متوسط آمدنی والی آبادیاں پانی کے مسئلے سے سب سے زیادہ دوچار ہیں۔— فوٹو نوشاد عالم
کم اور متوسط آمدنی والی آبادیاں پانی کے مسئلے سے سب سے زیادہ دوچار ہیں۔— فوٹو نوشاد عالم

نظام کی ستم ظریفی یہ ہے کہ جو زیادہ آمدنی والے علاقے ہیں، جو پانی خریدنے کی سکت رکھتے ہیں، وہاں سپلائی معمول پر رہتی ہے، اور جس غریب کی پہنچ سے پانی خریدنا باہر ہے، وہی خریدنے پر مجبور ہے۔

یہاں ایک عام قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ان ساری آبادیوں میں ٹینکرز کے ذریعے پانی بیچا جاتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ پانی موجود تو ہے، لیکن پھر اسے پائپ لائنوں کے ذریعے فراہم کیوں نہیں کیا جاتا؟

اسی سوال کے جواب کی تلاش میں یہ بڑا اسکینڈل ابھر کے سامنے آیا۔

اس وقت پانی کی کمی والے علاقوں میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے تحت کام کرنے والے 9 سرکاری ہائیڈرنٹس کے ذریعے پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ واٹر بورڈ کے مطابق ان ہائیڈرنٹس سے روزانہ 13.75 ملین گیلن پانی واٹر ٹینکرز کے 8 ہزار 377 چکروں سے شہریوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ جبکہ تحقیق کے مطابق اصل حقیقت یہ ہے کہ ان ہائیڈرنٹس سے 25 ملین گیلن پانی روزانہ 13 ہزار 750 ٹینکرز کے پھیروں کے ذریعے بیچا جاتا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ پانی شہریوں کو 15 سے 25 پیسے فی گیلن کے حساب سے مہیا کیا جاتا ہے، جو فاصلے کی بنیاد پر ہے۔ جبکہ رہاشی اور کمرشل بنیادوں پر بھی پانی کے ریٹ الگ الگ ہیں۔

اس حساب سے کراچی میں ٹینکرز کے ذریعے بیچے جانے والے پانی کے ریٹ کچھ اس طرح ہیں۔

  • 1 ہزار گیلن والا ٹینکر 150 سے 250 روپے

  • 2 ہزار گیلن والا ٹینکر 300 سے 450 روپے

  • 3 ہزار گیلن والا ٹینکر 450 سے 800 روپے

  • 5 ہزار گیلن والا ٹینکر 1200 روپے

یہ سب سرکاری ریٹ ہیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ پانی کے ریٹ ڈبل سے بھی زیادہ ہیں۔ اس طرح کراچی کے شہریوں کو یہ پانی 35 سے 60 پیسے فی گیلن کے حساب سے فروخت کیا جاتا ہے، جو فاصلے، بارگیننگ اور سیزن کے حساب سے گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔

کراچی میں اس وقت 1 ہزار سے 7 ہزار گیلن پانی لے جانے کے حامل واٹر ٹینکر چلتے ہیں، جبکہ کچھ واٹر ٹینکرز کی گنجائش 10 ہزار گیلن کی بھی ہے۔

سرکاری طور پر رہائشی مقاصد کے لیے 1 ہزار گیلن پانی کے 44 روپے یعنی 4.4 پیسہ فی گیلن وصول کیے جاتے ہیں جبکہ 73 روپے یعنی 7.3 پیسے کے حساب سے کمرشل بنیادوں پر فروخت کیا جاتا ہے۔

لیکن یہ ساری کہانی تو سرکاری ہائیڈرنٹس کی ہے۔ اصل کہانی اور تصویر کا دوسرا رخ کچھ اور ہے اور وہ بڑا ہی بھیانک ہے۔

ان سرکاری ہائیڈرنٹس کے علاوہ 161 ایسے ہائیڈرنٹس ہیں، جن سے اس اسکینڈل کی اصل کہانی جڑی ہے۔ یہ ہائیڈرنٹس شہر کو پانی سپلائی کرنے والی ان مین بلک لائنوں کو توڑ کر یا ان سے کنکشن لے کر قائم کیے گئے ہیں۔ شہر بھر میں ایسے چھے روٹس ہیں جہاں یہ ہائیڈرنٹس قائم ہیں۔

  • حب ریزروائر سے بنارس چوک تک منگھو پیر روڈ کے ساتھ ساتھ

  • بنارس چوک سے لیاری کے گٹر باغیچہ تک

  • میوہ شاہ قبرستان سے لیاری ندی کے ساتھ ساتھ شیر شاہ تک

  • نارتھ کراچی میں صبا سینما اور ایوب گوٹھ کے پاس سے گڈاپ ٹاون تک

  • ملیر مین نیشل ہائی وے کے ساتھ ساتھ، جہاں جہاں سے یہ بلک لائنیں گزرتی ہیں

  • قائد آباد اور لانڈھی کے مختلف علاقوں میں جہاں بلک لائنیں موجود ہیں

اس طرح ان چھے مقامات پر کل 161 غیر قانونی ہائیڈرنٹس موجود ہیں، جو پانی کی چوری اور اس کی غیر قانونی فروخت میں ملوث ہیں۔ ان ہائیڈرنٹس سے روزانہ ٹینکرز کے 8 ہزار 288 پھیرے لگتے ہیں۔ اندازاً ایک ٹینکر ایک دن میں 10 سے 12 چکر لگاتا ہے۔ اس کام کے لیے 700 سے 800 کے قریب ٹینکرز استعمال کیے جاتے ہیں۔

ان غیر قانونی ٹینکرز کے لیے مین لائنوں کو توڑ کر یا کنکشن لے کر جو فلنگ پوائنٹ بنائے گئے ہیں، وہ 4 سے 8 انچ قطر کے ہوتے ہیں۔ اس طرح 1 ہزار گیلن کا ایک ٹینکر 2 سے 3 منٹ میں بھر جاتا ہے۔ 2 ہزار سے 3 ہزار گیلن کا ٹینکر بھرنے میں 5 سے 10 منٹ لگتے ہیں، جبکہ 5 ہزار گیلن والا ٹینکر 10 سے 15 منٹ میں بھر لیا جاتا ہے۔

اب اسی کہانی کا ایک اور رخ، اور وہ ہے صنعتی علاقوں میں پانی کی ترسیل۔

کراچی کے پانچ صنعتی زونز کے لیے واٹر بورڈ کی جانب سے پانی کا مقررہ کوٹہ 46 ملین گیلن روزانہ ہے، جو کچھ اس طرح ہے۔

  • لانڈھی انڈسٹریل ایریا: 13 ملین گیلن

  • کورنگی انڈسٹریل ایریا: 14 ملین گیلن

  • سائٹ انڈسٹریل ایریا: 10 ملین گیلن

  • نارتھ کراچی انڈسٹریل ایریا: 5 ملین گیلن

  • ایف بی انڈسٹریل ایریا: 3 ملین گیلن

لیکن درحقیقت ان تمام انڈسٹریل ایریاز کی اصل کھپت 100 سے 145 ملین گیلن روزانہ ہے۔ اس طرح ان صنعتی علاقوں کی 90 فی صد پانی کی ضروریات واٹر ٹینکرز کے ذریعے پوری کی جاتی ہیں، یعنی 90 سے 131 ملین گیلن پانی روزانہ واٹر ٹینکرز سے فراہم کیا جاتا ہے۔ اور یہ پانی ان 161 غیر قانونی ہائیڈرنٹس سے ہی فراہم کیا جاتا ہے۔

غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے پاس پانی کے بڑے پائپس ہیں جو ہزاروں گیلن کا ٹینکر چند منٹوں میں بھر لیتے ہیں۔ — فوٹو فیصل مجیب
غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے پاس پانی کے بڑے پائپس ہیں جو ہزاروں گیلن کا ٹینکر چند منٹوں میں بھر لیتے ہیں۔ — فوٹو فیصل مجیب

اب ہم آتے ہیں اس اسکینڈل کے حوالے سے کراچی کی آبادی میں پانی کی کھپت، ترسیل اور شارٹ فال کی طرف۔

تحقیق کے مطابق کم آمدنی اور متوسط آمدنی رکھنے والے رہائشی علاقوں میں ایک فرد کے لیے ایک دن کے پانی کی کم از کم ضرورت 20 گیلن ہے۔ اربن ریسورس سینٹر کراچی اور اونگی پائلٹ پروجیکٹ کی حالیہ تحقیق کے مطابق کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ ہے۔ اس لحاظ سے کم از کم کھپت 20 گیلن سے حساب لگایا جائے تو کراچی کی روزانہ کی کھپت 320 ملین گیلن روزانہ ہے۔ صنعتوں کی اوسط کھپت 123 ملین گیلن روزانہ، باقی متفرق ضروریات کے لیے 123 ملین گیلن روزانہ ہے۔ اس طرح کراچی کی کل کھپت 566 ملین گیلن بنتی ہے۔

اور دوسری جانب اگر زیادہ آمدن والی آبادی کی کھپت میں مزید 15 گیلن روزانہ فی فرد کا اضافہ کر کے حساب لگایا جائے تو یہ زیادہ آمدن والے کراچی کی آبادی کا 20 فیصد ہیں۔ اس طرح کراچی کی پانی کی مکمل ضروریات 601 ملین گیلن روزانہ بنتی ہے۔

اب اس کہانی کو ایک اور پہلو سے دیکھیے۔ کراچی کے سابقہ تمام 18 ٹاونز کو بلک میں جو پانی فراہم کیا جاتا ہے، وہ کل 293 ملین گیلن روزانہ ہے، جس میں سے 15 فیصد پانی پرانی لائنوں اور دوسری ٹیکنیکل وجوہات کی بنا پر ضائع ہو جاتا ہے۔ واٹر بورڈ کا نظام اب بھی انہی ٹاؤنز کی سطح پر تقسیم ہے۔

اس طرح کھپت اور ترسیل میں 273 سے 308 ملین گیلن کا شارٹ فال موجود ہے، اور یہی وہ شارٹ فال ہے جسے 161 غیر قانونی ہائیڈرنٹس سے پورا کیا جاتا ہے۔

دستیاب سپلائی اور حقیقی سپلائی کا اوسطاً فرق 272.25 ملین گیلن روزانہ ہے۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ 25 ملین گیلن سرکاری ہائیڈرنٹس سے، اور 333 ملین گیلن غیر قانونی ہائیڈرنٹس سے کراچی کے شہریوں کو فراہم کیا جاتا ہے، اور یہ پانی مافیا شہریوں کی جیبوں سے سالانہ 50 ارب روپے نکال کر اپنی جیبوں میں ڈالتی ہے۔

جس معاشرے میں پینے کے پانی کو بھی چوری اور ذخیرہ اندوزی کے ذریعے غریبوں کو بیچا جاتا ہو، وہاں سے ابرِ رحمت روٹھ جاتا ہے. وہاں رہنے والے غریبوں کے جسم پر گرمی کے ساتھ غربت کے دانے بھی نکل آتے ہیں جو کبھی دوائیوں سے ختم نہیں ہوتے۔