Dawnnews Television Logo

43.9 کھرب روپے کا بجٹ پیش، تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ

وفاقی ملازمین کی پنشن اور تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ جب کہ کم سے کم تنخواہ 14 ہزار مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اپ ڈیٹ 04 جون 2016 09:51am

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مالی سال 17-2016 کے لیے 43.9 کھرب روپے کا مالیاتی بجٹ پیش کر دیا جس میں ٹیکس آمدنی میں 17 فیصد اضافے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

حکومت نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے لیے معاشی ترقی کا ہدف 5.7 فیصد مقرر کیا ہے جب کہ مالیاتی خسارے کو مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے 3.8 فیصد تک لانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران کہا کہ وفاقی ملازمین کو یکم جولائی 2016 سے رننگ بیسک پر دس فیصد ایڈ ہاک ریلیف دیا جائے گا جب کہ 2013 اور 2014 کے ایڈ ہاک ریلیف کو بنیادی تنخوا میں شامل کیا جا رہا ہے۔

تنخواہوں میں اضافہ

بجٹ میں وفاقی ملازمین کی پنشنز میں 10 فیصد اضافہ کرنے جب کہ 85 سال سے زائد عمر کے پنشنرز کی پنشن میں 25 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔

وزیر خزانہ کے مطابق بجٹ میں توانائی کے شعبے کے لیے سب سے زیادہ 130 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے 32 ارب روپے جب کہ داسو ڈیم کے لیے 42 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ جون 2018 تک نیشنل گرڈ میں 10 ہزار میگا واٹ بجلی شامل ہو جائے گی۔

مزدوروں کی کم سے کم اجرت کو 13 ہزار سے بڑھا کر 14 ہزار کرنے کا اعلان


کم آمدن والے غریب خاندانوں کو نقد مالی اعانت فراہم کرنے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے آئندہ مالی سال کے دوران 115 ارب روپے مختص کیے جائیں گے اور فی خاندان کو 18 ہزار روپے ماہانہ فراہم کیے جائیں گے۔

سگریٹ پر ٹیکس عائد، لیپ ٹاپ پر ختم کرنے کی تجویز

بجٹ میں سگریٹ پر مزید سیلز ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کم درجے کے سگریٹ پر 23 پیسے جب کہ اعلیٰ درجے کے سگریٹ پر 55 پیسے ٹیکس عائد کرنے جب کہ پان اور چھالیہ پر عائد موجودہ ڈیوٹی کو دگنا کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں لیپ ٹاپ اور ڈیسک ٹاپ پر سیلز ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جب کہ اونچے درجے کے اسمارٹ فونز پر ڈیوٹی 1000 روپے سے بڑھا کر 1500 روپے جب کہ نچلے کیٹیگری کے فونز پر عائد 500 ڈیوٹی کو برقرار رکھنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

غیرملکی ڈراموں پر ٹیکس عائد

حکومت نے بجٹ میں مقامی ٹی وی چینلز پر چلنے والے غیرملکی ڈراموں اور سیریلز پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے اور بیرون ملک اشتہارات پر لاگت کے 20 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔

واضح رہے کہ حکومت نے 17-2016 میں مجموعی بجٹ میں 3 کھرب روپے کا اضافہ کیا ہے ، جس کے بعد گزشتہ برس کے مقابلے میں بجٹ میں 7.3 فیصد کا اضافے کی تجویز ہے۔

خیال رہے کہ 15-2014 کے مقابلے میں گزشتہ برس 16-2015 میں بجٹ میں 7.9 فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کے قیام پر 14-2013 میں پیش کیے گئے بجٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے 13-2012 میں پیش کیے گئے آخری بجٹ کے مقابلےمیں 24 فیصد کا بڑا اضافہ دیکھنے میں سامنے آیا تھا۔


مہنگائی

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ ملک میں فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ بڑھ کر 1561 ڈالر فی کس ہوگئی ہے جبکہ مہنگائی میں 2.8 فیصد کی کمی آئی ہے جو کہ گذشتہ 10 سال میں سب سے کم ترین سطح پر ہے


مالی خسارہ

بجٹ تقریر کے دوران وزیر خزانہ نے بتایا کہ گذشتہ مالی سال کے دوران مالی خسارہ 4.3 فیصد تک آگیا جسے مالی سال 17-2016 میں کم کرکے 3.8 کردیا جائے گا۔


ٹیکس ریونیو

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران ٹیکسوں کی وصولی میں 60 فیصد اضافہ ہوا جب کہ جون کے اختتام تک ٹیکسوں کی وصولی کا 3104 ارب روپے کا ہدف حاصل کر لیں گے۔


ترقیاتی فنڈز

وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر کے دوران بتایا کہ گزشتہ 8 سال میں ترقی کا اوسط 4 فیصد رہا جبکہ اب یہ 4.7 فیصد ہو گیا ہے جو کہ 8 سال میں بلند ترین سطح ہے۔

اسحاق ڈار نے بتایا کہ دیہی علاقوں کو ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے 4 نئے منصوبے شروع کیے جارہے ہیں جس کے لیے 11 ارب 94 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔

انھوں نے بتایا کہ ہماری حکومت نے ترقیاتی اخراجات میں کمی کیے بغیر مالی نظم و ضبط کو برقرار رکھا، حکومت نے گذشتہ مالی سال کے لیے ترقیاتی بجٹ 348 ارب روپے سے بڑھا کر 661 ارب روپے کیا تھا، جبکہ مالی سال 17-2016 میں ترقیاتی اخراجات کے لیے 800 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔


دفاع

حکومت کی جانب سے 17-2016 کے دفاعی بجٹ میں 10.9 فیصد اضافہ تجویز کیا ہے،عمومی طور پر گزشتہ تین سال میں دفاع کے بجٹ میں 11 فیصد اضافہ ہوتا رہا ہے۔

بجٹ میں یہ تجویز پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 17-2016 کے لیے 860 ارب 20 کروڑ روپےرکھے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ مالی سال 16-2015 میں دفاعی بجٹ میں 718 ارب 20 کروڑ روپے رکھے گئے جبکہ 15-2014 میں 700 ارب 15 کروڑ روپے اور 14-2013 کے بجٹ میں دفاع کے لیے 627 ارب 23 کروڑ روپے رکھے گئے تھے۔



تعلیم

حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے لیے بجٹ میں 11 فیصد اضافہ کیا۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 17-2016 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے 79 ارب 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔



صحت

وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ صحت کے منصوبوں کے لیے 22 ارب 40 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔

2016-17 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ وزیر اعظم ہیلتھ پروگرام جاری رہے گا۔



جی ڈی پی کا ہدف

حکومت نے ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کے ہدف میں بھی اضافہ کیا جبکہ 18-2017 کا ملکی مجموعی پیداوارکا ہدف بھی ابھی سے مقرر کر دیا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں کہا کہ 17-2016 کے لیے حکومت نے جی ڈی پی کا ہدف 6.2 مقرر کیاہے۔

یاد رہے کہ 16-2015 میں جی ڈی پی کا ہدف 5.5 مقرر کیا گیا تھا مگر اس کو حاصل نہیں کیا جا سکا اور یہ 4.7 فیصد تک محدود رہا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے بجٹ خطاب میں بھی اعلان کیا کہ حکومت نے 18-2017 کے جی ڈی پی کا ہدف 7 فیصد مقرر کیا ہے۔




کم سے کم تنخواہ

وفاقی حکومت کے بجٹ میں کم سے کم تنخواہ میں 7.14 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت نے مزدورکی کم سے کم تنخواہ 14000 روپے مقرر کر دی ہے۔

خیال رہے کہ 16-2015 ک بجٹ میں وفاقی حکومت نے مزدورکی کم سے کم تنخواہ 13000 روپے مقرر کی گئی تھی۔

حکومت نے 17-2016 کے بجٹ میں ایک ہزار روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔



زراعت

وزیر خزانہ نے کہا کہ زراعت میں حکومت جانب سے تمام ممکنہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ڈی اے پی کھاد کی بوری یکم جولائی سے 2500روپے میں ملے گی۔

وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ڈی اے پی کی فی بوری قیمت میں 300 روپے کی کمی کی تجویز کی گئی ہے۔

بجٹ میں یہ بھی تجویز شامل کی گئی کہ یکم جولائی سے یوریا کھاد کی فی بوری 1400روپے کردی جائے۔

زراعت کے حوالے سے یہ بھی اعلان کیا گیا کہ نئے بیج تیار کرنے والے سائنسدانوں کو سہولت دینے کے لیے قانون بنے گا۔

بجٹ میں کیڑے مار ادویات پر سیلز ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جب کہ زراعی ٹیوب ویل کے لیے بجلی سستی کرکے 5 روپے 35 پیسے فی یونٹ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔



پبلک سروسز

وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر کے دوران بتایا کہ توانائی کے شعبے میں حکومت نے لوڈشیڈنگ کے حوالے سے کام کیا جس سے اب لوڈشیڈنگ ایک نظام کے تحت ہو گئی، مارچ 2018 تک سسٹم میں 10ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں آ جائے گی۔

مربوط پالیسی کے تحت غربت میں کمی آئی، نئے فارمولے کے تحت غربت 34 فیصد سے کم ہو کر 9 فیصد آ چکی ہے، بے روزگاری کی شرح میں بھی کمی ہوئی ہے۔

2016-17 میں نے نظیر انکم سپورٹ کے تحت 18800 روپے ماہانہ دیئے جا رہے ہیں جس سے 53 لاکھ خاندان استفادہ کر رہے ہیں۔

پبلک سکیٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے علاوہ 17-2016 میں دیگر ترقیاتی اخراجات کیلئے 156.6 ارب روپے تخمینہ ہے۔

2016-17 میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کا حجم 1.675 ارب روپے ہے۔ جس میں 875 ارب روپے صوبوں کیلئے مختص کیے گئے ہیں۔

800 ارب روپے وفاقی پی ایس ڈی پی کیلئے جس میں 282 ارب روپے وفاقی وزارتوں ڈویژنز کیلئے ، 318 ارب روپے کارپوریشن کیلئے، 20 ارب روپے پاک ملینیم ڈیولپمنٹ اہداف اور کمیونٹی پروگرام (ایم ڈی جیز) کیلئے، 28 ارب روپے خصوصی وفاقی ترقیاتی پروگرام کیلئے، 7 ارب روپے زلزلہ متاثرین کی بحالی و تؑمیر نو کی اتھارٹی (ای آر آر اے) کیلئے، 25 ارب روپے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپنٹ کیلئے، 100 ارب روپے عارضی طور پر بے دخل کردہ اشخاص (ٹی ڈی پیز) کیلئے کے خصوصی پروگرام اور سیکیورٹی کی تقیت کیلئے اور 20 ارب روپے وزیراعظم کے یوتھ پروگرام کیلئے مختص ہپں۔



پبلک آرڈر سیفٹی

پبلک آرڈر اینڈ سیفٹی کیلئے رواں مالی سال 17-2016 میں 94.9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جوگذشتہ مالی سال 16-2015 میں 86.5 ارب روپے تھا، مذکورہ رقم عدالت، پولیس، آتشزدگی سے بچاؤ کے ساتھ ساتھ قید کے انتظامات اور قانون کا نفاذ کی مد میں کی گئی ہیں

حکومت نے آپریشن ضرب عضب سے بے گھر افراد کی بحالی کے لیے 100ارب روپے رکھنے کی تجویز بجٹ میں پیش کی۔



اقتصادی معاملات

شرح نمو (جی ڈی پی گروتھ) کو 7 فیصد تک لے جانا 2018 تک کا ہدف رکھا گیا ہے جبکہ مالی خسارے کو شرح کے 4 فیصد تک لانے کی کوشش کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ برآمدات میں اضافے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ٹیکسٹائل، قالین، سرجری، کھیل سمیت 5 شعبوں کی سیلز ٹیکس کے حوالے سے زیرو ریٹڈ کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔

صوبائی سرپلس کا تخمینہ

16-2015 کے بجٹ میں صوبائی سرپلس کا تخمینہ 297173 ملین روپے تھا جو سال 16-2015 کے نظر ثانی تخمینے میں بڑھ کر 336.806 ملین روپے ہوگیا یعنی 13.3 فیصد زیادہ ہوگیا۔

بیرونی وسائل

حکومت بیرونی قرضے اور امدادی رقوم حاصل کرکے سرمایہ جاتی اور ترقیاتی اخراجات پر صرف کرتی ہے۔ بیرونی وسائل کا تخمینہ 16-2015 میں 727533 ملین روپے تھا جو نظر ثانی شدہ تخمینے میں بڑھ کر 821426 ملیں روپے روگیا یعنی 12.9 فیصد زیادہ ہوگیا۔

قطعی ریونیو وصولیات میں سے حصہ منتقل کرنے کے بعد 16-2015 کے میزانیہ میں وفاقی حکومت کی قطعی ریونیو وصولیات تخمینہ 2463351 ملین روپے تھا، جو 16-2015 کے نظر ثانی شدہ تخمینے میں بڑھ کر 2480671 ملین روپے ہوگیا یعنی 0.7 فیصد کا اضافہ ہوگیا ۔



ماحولیات

نئے مالی سال 17-2016 میں ماحولیات کی مد میں 1.06 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ گذشتہ مالی سال 16-2015 میں اس کا تخمینہ 1.05 ارب روپے تھا جسے گندے پانی کے انتظام کے لئے بنیادی طور مخصوص کیا گیا تھا۔

مندرجہ ذیل گراف کے ذریعے گذشتہ 4 سالوں میں ماحولیات کیلئے مٹیص کی گئی رقم کی تفصیلات درج ہیں۔